Saturday 6 August 2011

ویلکم ٹو لاہور

میں جہاں بھی ہوں یہ یقیناً پاکستان کا حصہ نہیں ہے‘ میں نے سوچا۔
اس رات ہم سب دوست ایک ڈھولکی کی تقریب میں شریک ہونے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ڈھولکی کے بعد رات ڈھائی بجے کا وقت تھا جب ہم بغیر کسی طے شدہ پروگرام کے محض اتفاقاً بیدیاں روڈ جا پہنچے۔ ہمارے ایک ساتھی کا اصرار تھا کہ چل کر دیکھا جائے’آل نائیٹر مارنے میں کیا مزہ آتا ہے‘
بیدیاں روڈ ڈیفنس سے آگے لاہور سے تقریباً باہر ایک ایسی جگہ ہے جہاں لاہور کے ’ایلیٹ‘ لوگوں نے زمینیں خرید کر فارم ہاؤس بنا رکھے ہیں۔ یہ فارم ہاؤس عام طور پر رہائش سے زیادہ دیگر اور طرح کی مصروفیات کے لیے کام آتے ہیں۔ ان مصروفیات میں سے ایک پرائیویٹ ڈانس پارٹیز ہیں۔
ایک بڑے میدان میں بیشمار مہنگی گاڑیوں کے درمیان اپنی گاڑی پارک کرنے کے بعد ہم ایک فارم ہاؤس کے گیٹ پر پہنچے جہاں مسلح گارڈ کھڑے تھے اور ان کے ساتھ دو نوجوان اندر جانے والوں سے نام پوچھ رہے تھے۔
زمین کے ایک وسیع ٹکڑے کو اس انداز میں بنایا گیا تھا کہ ایک کونے میں تین کمرے تھے اور باقی پوری جگہ ایک لان جسے چاردیواری نے گھیر رکھا تھا۔ لان میں ایک طرف کمروں کے ساتھ ڈانس فلور بنایا گیا تھا جہاں پر ڈی جے اور چار نوجوان لوگوں کو ٹرانس میوزک کی دھنوں پر مدہوش کر رہے تھے۔
لوگ صرف موسیقی کی دھن پر مدہوش نہیں ہو رہے تھے بلکہ وہاں مدہوش ہونے کا پورا سامان موجود تھا۔ شراب کی مہک پوری فضا میں رچ بس گئی تھی۔ وہاں ہر شخص (لڑکا یا لڑکی) کے ہاتھ میں شراب تھی۔ کوئی پی رہا تھا تو کوئی پلا رہا تھا۔ لوگ آپس میں نہ صرف پینے اور پلانے میں مصروف تھے بلکہ ایک دوسرے پر شراب پھینک کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب کچھ چھینٹیں مجھ پر پڑیں تو میں وہاں سے ہٹ گئی۔
آدھی رات گزر چکی تھی مگر اس وقت بھی یہاں دن کا سماں تھا۔ لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد برابر تھی۔ مگر میرے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ لڑکیوں کی عمر زیادہ تر بارہ سال سے لے کر پچیس سال تک تھی اور لڑکے تقریباً اٹھارہ سال سے لے کر تیس سال کی عمر تک تھے۔ ان لڑکیوں نے جس طرح کے لباس پہن رکھے تھے وہ ایف ٹی وی پیرس سے چلنے والے کسی بھی فیشن شو میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ میرے لیئے جسم کی کھلم کھلا نمائش اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔
میں بیٹھنے کی جگہ تلاش کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ شہر سے باہر یہ سب لوگ کس چیز کی تلاش میں ہیں۔ یہ نوعمر لڑکیاں جو مشکل سے ایف اے کی طالبات ہونگی اور یہ لڑکے جو جوانی کی دہلیز پر قدم نہیں جما پائے، کیسے شراب کے نشے میں دھت ایک دسرے کی بانہوں کے سہارے قدم جمانے کی کوشش رہے ہیں۔
یہ سب لوگ کون ہیں؟ یہ سب ’اچھے گھروں‘ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں تعلیم مسئلہ نہیں، جہاں پیسے کی کمی نہیں اور جہاں ماں باپ گھر میں ایک آزاد فضا قائم رکھتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے بڑی فرسٹریشن پیسہ ہےمگر یہ سب لوگ پیسے کی کمی کا شکار ہرگز نہیں تھے۔ پھر یہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نہ صرف شراب پی رہے ہیں بلکہ غالباً چرس، کوکین بھی استعمال کر رہے ہیں
ایک لڑکے سے میں نے پوچھا کہ تم کوکین کیوں کرتے ہو تو اس کا کہنا تھا ’کوکین ہر کوئی نہیں کرتا یہاں کوک گیارہ ہزار روپے گرام ہے اور میں اپنی تنخواہ میں سے پیسے بچاتا ہوں صرف تھرل کے لیے۔‘
ابھی میں اپنے سوالوں میں گم تھی کہ ایک طرف سے چیخوں کی آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں تھوڑا آگے بڑھی تو دیکھا ایک لڑکی جس کی عمر مشکل سے چودہ سال ہوگی، بری طرح رو رہی تھی کیوں کہ اس کی ساتھی لاؤنج میں بیہوش پڑی تھی۔ وہ مدد کے لیے پکار رہی تھی لیکن لوگوں کو اپنی ہوش ہوتی تو اس کی سنتے۔
آخر کار گارڈ اس کی مدد کو پہنچے اور اس بیہوش لڑکی کو اٹھانے کی کوشش کی۔ وہ لڑکی پوری طرح سے بیہوش تھی اور اس کو اٹھانے کے لیے گارڈ جتنی محنت کر رہے تھے اس میں کسی کو فکر نہیں تھی کہ اس کے برائے نام کپڑے بھی کہاں جا رہے ہیں۔ وہ بس اس کو جلد از جلد وہاں سے نکالنا چاہتے تھے کہ کہیں کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔
ان دونوں کے ساتھ کوئی لڑکا نہ تھا۔ لڑکی نے بتایا کہ وہ دونوں سہیلیاں ہیں اور گھر سے ڈرائیور کے ساتھ آئی ہیں۔ پندرہ منٹ کی محنت کے بعد آخرکار اسے کار تک پہنچا دیا گیا۔ اس کے پیچھے چلتی اس کی پریشان ساتھی کو ایک لڑکے نے روک کر کہا: ’فکر کی کوئی بات نہیں اس کو جتنا ہو سکے پانی پلا دینا یہ ٹھیک ہو جائےگی‘۔ اس لڑکی نے انتہائی پریشانی سے جواب دیا کہ اس کی ساتھی نے صرف شراب نہیں پی بلکہ کوکین بھی کی ہے‘۔ لڑکے نے ہمدردی سے سر ہلایا۔ اور وہ لڑکی گارڈز کے ساتھ گیٹ سےباہر غائب ہوگئی۔
میں واپس آئی تو ڈانس فلور پر نیم اندھیرے میں سب لڑکے اور لڑکیاں مدہوش ناچ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ لڑکیاں آہستہ آہستہ فلور سے غائب ہورہی ہیں۔ اب فلور پر صرف لڑکے تھے، کچھ بالکل ہی چھوٹی عمر کے بمشکل سولہ سترہ سال کے اور باقی پچیس سے تیس سال کےدرمیان۔ وہ سب آپس میں ناچ رہے تھے، ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے اور بوس وکنار ہورہا تھا۔ اس فلور پر ناچ کم اور کھلے عام محبت کا اظہار زیادہ ہو رہا تھا۔ میں نے آج سے پہلے صرف سن رکھا تھا مگر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق پہلی مرتبہ تھا۔
وہاں سو سے زیادہ لوگ موجود تھے اور ان میں سے تقریباً تیس فیصد ایسے تھے جو مخالف جنس میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ہم جنس پرستی کے اس کھلے اظہار کو وہاں موجود پارٹی آرگنائزر نے تقریبا پندرہ منٹ برداشت کیا اور پھر ان کو ڈانس فلور سے جانے کو کہا گیا۔ چونکہ وہ اپنے مطلب کے لوگ اکٹھے کر چکے تھے اس لیے انہیں وہاں سے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا اور وہ اپنے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں سے اتر کر لان کے کونے کھدروں میں غائب ہوگئے۔
ڈانس فلور ایک بار پھر لڑکیوں اور لڑکوں سے بھر گیا اور ایک اور دور چلا ٹرانس میوزک کا، شراب کا اور چرس کا دھواں پھیل گیا ہر طرف۔ڈانس فلور پر جلنے والی رنگ برنگ لائیٹیں بند کر دی گئیں سوائے دو سرخ روشنیوں کے۔ اور فضا میں ایک انگریزی گانے کے بول گونجے جو کچھ یوں تھے: ’اٹس گیٹنگ ہاٹ ان ہیئر سو ٹیک آف یور کلوتھز‘ مجھے یوں لگا کہ یہ گیت جیسے کسی رسم کا آغاز ہو کیونکہ وہاں فلور پر موجود کچھ لڑکیوں نے اپنے برائے نام کپڑوں سے بھی آزادی حاصل کر لی۔ کچھ لڑکوں نے انہیں گھیر لیا اور وہ ناچتے ناچتے ایک طرف ہوگئے۔
ہر طرف لڑکے لڑکیاں اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ’ہیونگ اے گڈ ٹائم‘ (اچھا وقت گزارنے) میں مصروف تھے۔ کسی کو یاد نہیں کہ صبح ہونے میں اب زیادہ وقت باقی نہیں ہے مگر ’صبح ہونے سے پہلے خبر ہو جائے‘ اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ لان کے بیچوں بیچ ایک ایسی طاقتور لائٹ لگائی تھی جس کا رخ آسمان کی طرف تھا اور پارٹی کا باقاعدہ اختتام اسی لائٹ کی روشنی میں کیا گیا۔
فجر کی اذان کی آواز تو یہاں نہیں پہنچی مگر جب پو پھٹی تو اس سے کچھ لمحے پہلے ایک گانا بلاسٹ ہوا جس کے بول تھے: ’صبح ہونے کو ہے چلو سب مل کر سورج نکلتا دیکھیں‘۔ سب کی نظریں آسمان کی طرف لگ گئیں اور پیار کے اظہار میں زوروشور بڑھ گیا۔ سب کو پتہ تھا کہ رات ختم ہونے والی ہے اور یہ لمحے دوبارہ نہیں ملیں گے۔
جس لڑکے نے یہ پارٹی آرگنائز کی تھی جب میں نے اسے بتایا کہ میں نے پہلی بار اس طرح کی پارٹی دیکھی ہے تو اس نے مجھے کہا: ’ویلکم ٹو لاہور، آج تم پیدا ہوگئی ہو‘۔

9 comments:

  1. any lade wants sex contact me faisalabaden@ymail.com or +923143174600

    ReplyDelete
  2. Me 22 sal ka larka hon or Quetta me rehta hon. Agar koi larki muj se sex karna chahti he to muj se is email pe contact kare.
    janwalijan@ymail.com

    ReplyDelete
  3. ‏‎any hot sexy lady r botom gay boy cntact r message me m.yaser.. ..03043415350..m.yaser‎

    ReplyDelete
  4. sms 03156473095 razdare k sath

    ReplyDelete
  5. only girls for Multan and Lahore call me,
    0307-7376220 Zong no

    ReplyDelete
  6. only girls for Multan and Lahore call me,
    0307-7376220 Zong no

    ReplyDelete
  7. koi b female mukaml razdari k sath plz call kr skti hy 03334848555

    ReplyDelete
  8. sms or call plz razdari k sath 03436908467

    ReplyDelete
  9. Ali hasnain 4m mardan 03145732645

    ReplyDelete