Sunday 21 August 2011

ک ک ک کرن


میرا نام کرن ہے یہ اسوقت کا واقعہ ہے جب میری عمر بائیس سال تھی۔ جوانی مجھ پر بھرپور طریقے سے آئی تھی اور کچھ مجھے بھی مستی زیادہ تھی مگر اپنی اور اپنے خاندان کی فکر زیادہ تھی۔ قسمت نے کچھ ایسا وقت دکھایا کہ میری دوستی ایک لڑکی جسکا نامشہلا تھا اس سے ہوگئی۔یہ بھی ایک اچھی خاصی خوبصورت لڑکی تھی۔ اسکی دوستی کافی لڑکوں سے تھی۔ سیکس بھی کرچکی تھی یہ سب باتیں مجھے کافی بعد میں پتہ چلی تھیں۔ اسوقت تک اسکے ساتھ دوستی کافی گہری ہوچکی تھی۔ خیر ہر جوان لڑکی کی طرح گرمی اور مستی تو میرے اندر بھی تھی۔مگر میں اسکو کنٹرول میں رکھتی تھی۔ مگر میری شہلا کے ساتھ کافی بات چیت ہوتی تھی سیکس کے موضوع پر جس سے میرے اندر سیکس کے جذبات ابھرنے لگے تھے۔ مگر میں نے کبھی شہلا پر ظاہر نہیں ہونے دیا کہ میرے دل میں بھی سیکس کی خواہش جنم لے چکی ہے۔ میری ابھی پڑھائی چل رہی تھی اور امی ابو میری جلدی شادی کرنے کے حق میں نہیں تھے۔میرا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا وہ ہاسٹل میں رہتا تھا۔ شہلا کا میرے گھر کافی آنا جانا تھا۔میرے امی ابو سے بھی اس کی اچھی سلام دعا تھی۔ وہ انکی نظروں میں ایک اچھی لڑکی تھی۔
ایک دن شہلا نے مجھے بتایا کہ وہ کل  ایک پارٹی میں جارہی ہے جو صرف لڑکوں اور لڑکیوں کی ہے اس نے اپنے گھر والوں کو کچھ اور بتایا ہے وہاں اسکے کچھ لڑکے دوست بھی آئیں گے وہ انکے ساتھ اچھا وقت گذارنا چاہتی تھی۔شہلا نے مجھے بھی اکسایا کہ میں بھی اسکے ساتھ چلوں میں نے پہلے تو اسکو منع کیا پھر ہاں تو کردی مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ میرے والدین سے اجازت لے گی۔ اس نے فوراً میری امی سے بات کی یہ کہہ کر کے ایک کلاس فیلو کی برتھ ڈے پارٹی ہے اس میں جانا چاہتے ہیں ہم لوگ۔یہ ہی بات اس نے اپنے گھر والوں سے بھی کہی تھی۔ میری امی نے کافی بحث کے بعد اجازت دے دی مگر اس شرط کے ساتھ کہ پارٹی سے واپسی جلدی ہو۔ بس پھر کیا تھا میری خوشی کا بھی ٹھکانا نہ تھا۔ شہلا نے  مجھ سے کہا کل تم شام چھ بجے تک تیار رہنا میں تمہیں لے لونگی۔بس اگلے دن پورے چھ بجے مجھے شہلا کی کار کا ہارن سنائی دیا۔میں تیار ہی بیٹھی تھی۔امی کو بتا کر میں شہلا کے ساتھ جا کر کار میں بیٹھ گئی میں نے ایک شلوار قمیض پہنا تھا جس میں میرا حسن اور بھی نکھر رہا تھا۔ جبکہ شہلا جینز اور ٹی شرٹ میں تھی۔ میں نے اسکو دیکھا اور کہا شہلا یہ کیا حلیہ ہے اس نے کہا وہاں ڈانس پارٹی بھی ہے اب کی ساڑھی پہن کر جاتی میں ۔ میں یہ سوچنے لگی میں تو عجیب ہی لگوں گی اس ڈریس میں وہاں سب کے سامنے۔ خیر آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم لوگ ایک بنگلے کے سامنے رکے۔ شہلا نے موبائل نکال کر کسی کو فون کیا تو ذرا دیر میں چوکیدار نے اندر سے گیٹ کھولا اور ہم لوگ کار لے کر سیدھے اندر ہی چلے گئے۔ اندر پہلے سے کافی کاریں پارک تھیں۔ہم نے بھی ایک مناسب جگہ پر اپنی کار پارک کی۔پھر میں اور شہلا اتر کر اندر جانے ہی لگے تھے کہ ایک لڑکا اندر سے نکلا جسکا نام شہلا نے علی بتایا۔وہ شہلا کے ساتھ بڑی گرم جوشی سے ملا اور مجھے بغور دیکھتا رہا۔ پھر ہم لوگ اندر داخل ہوئے تو اندر پہلے ہی کافی رش تھا بہت سارے لڑکے اور لڑکیاں موجود تھے جو خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہمارے آنے کا کسی نے نوٹس بھی نہیں لیا شہلا نے مجھے ایک کرسی پر بٹھایا اور ذرا دیر میں واپس آنے کا کہہ کر اپنے کچھ بوائے فرینڈز سے ملنے لگی۔سب شہلا کو دیکھ کر کافی خوش تھے۔ذرا دیر بعد کسی نے تیز آواز میں میوزک لگا دیا جس پر سارے لڑکے اور لڑکیا ں بدمست ہو کر ناچنے لگے۔ شہلا بھی علی کے ساتھ پوری مست ہو کر ڈانس کر رہی تھی جبکہ میں اکیلی ایک کرسی پر بیٹھی سارا منظر دیکھ رہی تھی۔اور کوس رہی تھی اسوقت کو جب میں نے یہاں آنے کی ہامی بھری تھی۔مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔تھوڑی دیر میں شہلا علی اور ایک اور اسمارٹ سے لڑکے کے ساتھ میرے پاس آئی اور میرا تعارف ان سے کروایا علی سے تو میں مل چکی تھی مگر وہ اسمارٹ لڑکا سلمان تھا۔
سلمان نے مجھ سے پوچھا آپ کیوں ڈانس نہیں کر رہی ہیں؟
 اسکو ڈانس نہیں آتا سلمان یہ پہلی بار کسی ایسی پارٹی میں آئی ہے یہ گھر سے کم نکلتی ہے میں زبردستی اسکو لے کر آئی ہوں۔ میری جگہ شہلا نے فٹافٹ جواب دیا۔
سلمان نے میری جانب عجیب نظروں سے دیکھا جیسے کچھ تلاش کر رہا وہ میرے اندر۔ مگر کچھ بولا نہیں اتنی دیر میں شہلا نے کہا چلو علی کوئی اور میوزک لگواؤ اس پر ڈانس کرینگے۔ یہ کہہ کر شہلا علی کو لے کر واپس ڈانس فلور پر چلی گئی جبکہ سلمان میرے پاس بیٹھ کر باتوں میں مصروف ہوگیا۔
آپ پہلی بار کسی ایسی پارٹی میں آئی ہیں تو کافی بوریت محسوس کر رہی ہونگی۔ سلمان نے پوچھا
جی بس بوریت ہو تو رہی ہے ۔ مگر اب تو آچکی ہوں۔ میں نے پر اعتماد انداز میں جواب دیا۔
چلیں میں آپکی بوریت دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ چلیں ہم لوگ ٹیریس پر چلتے ہیں تھوڑی ٹھنڈی ہوا کھاتے ہیں اور باتیں بھی کرینگے۔سلمان نے مجھے ایسے آفر کی جیسے برسوں سے جانتا ہو۔
خیر میں نے بھی ایڈونچر کرنے کا سوچا اور سلمان کے ساتھ جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
سلمان نے مجھے ساتھ لیا اور بے سدھ ناچتے لوگوں کے درمیان سے لے کر مجھے چلتا ہو سیڑھیوں کی طرف جانے لگا۔اچانک سلمان کے سامنے ایک لڑکی ڈانس کرتے کرتے سلپ ہو کر گری تو سلمان ایک دم رکا اور اپنے ہاتھ پیچھے کیے جو سیدھے میرے مموں سے ٹکرائے۔
"اف" میرے منہ سے ذرا تکلیف کے ساتھ ایک کراہ نکلی۔
"اوہ سوری ! مجھے بالکل خیال نہیں رہا کہ آپ بالکل پیچھے ہیں۔" سلمان نے فوراً معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"کوئی بات نہیں ۔ آپ نے کونسا جان کر مارا ہے۔" میں نے تھوڑا سخی بنتے ہوئے جواب دیا۔
"چلیں ہم جلدی سے نکلیں یہاں سے ورنہ پھر کوئی گرے گا ہمارے سامنے۔" سلمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور اسکے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ مجھے شہلا کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ خیر میں نے سوچا جائے گی کدھر ہوگی ادھر ہی آخر یہ سب اسکے دوست ہیں۔ یہ سوچ کر میں آگے بڑھتی رہی۔ پھر ہم سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر ٹیرس پر پہنچ گئے۔ موسم تھوڑا ٹھنڈا تھا اور تھوڑا اندھیرا بھی ہوچکا تھا مگر ٹیرس پر کچھ کچھ جگہ پر لائٹ تھی۔ ہم ایک مناسب جگہ دیکھ کر گرل کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ اچانک سلمان کی نظر ایک کونے پر پڑی جہاں دوسائے تھے جو ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے اور انکی کسنگ کی آوازیں ہم کو صاف سنائی دے رہی تھیں۔ میری بھی نظر ادھر ہی گئی جدھ سلمان دیکھ رہا تھا میں زندگی میں پہلی بار ایسا سین اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ میرے تو حواس ہی جواب دے گئے پھر مجھے اپنے کان گرم ہوتے محسوس ہوئے اسکے بعد مجھے لگا میرے جسم کا ٹمریچر بڑھ رہا ہے۔اور میری سنانسیں بے ترتیب اور دل کی دھڑکنیں بھی دگنی رفتار سے چلنے لگیں۔میری سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کروں کہاں جاؤں سلمان نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا چلیں ہم دوسرے کارنر پر چلتے ہیں۔ میں اسکے اچانک ہاتھ پکڑنے سے بوکھلا گئی میری سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دو وہ مجھے تقریباً گھسیٹتا ہوا ایک دوسرے کونے میں لے گیا جہاں سے وہ دونوں ہم کو اور ہم انکو نظر نہیں آسکتے تھے۔سلمان نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور ہم پہلے کی طرح کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ سلمان باتوں باتوں میں میرے حسن کی تعریف کر رہا تھا۔ جو مجھے اچھی تو لگی مگر میں اب گھبرا چکی تھی۔ کیونکہ یہاں کا ماحول کچھ خطرناک تھا۔ اور مجھے ابھی مزید وقت یہاں گذارنا تھا۔ذرا دیر باتیں کرتے کرتے سلمان کے ساتھ میں کچھ فری ہوچکی تھی۔ ایکدم سلمان نے کہا کرن میں آپکو کس کرنا چاہتا ہوں آپ مجھے اچھی لگی ہیں۔ میں اسکی بات سن کر ہکا بکاہ رہ گئی ۔ سلمان کو میں ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ اس نے میرے جواب کا انتظارکیے بغیر میرے سر کو پیچھے سے ایک ہاتھ سے پکڑا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے مجھے جیسے پورے بدن میں کرنٹ دوڑتا محسوس ہوا۔اسی دوران سلمان کا دوسرا ہاتھ مجھے اپنے ایک کولہے پر محسوس ہوا۔ تو جیسے مجھے ہوش آیا ۔ میں نے ایک جھٹکے سے سلمان کو پیچھے ہٹایا اور کہا یہ کیا کررہے ہو تم تمہاری اتنی ہمت کیسے ہوئی ۔ وہ مجھے ایسے روپ میں دیکھ کر حیران ہوگیا۔اور کچھ دیر حیر ت سے دیکھنے کے بعد تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھا اور نیچے اترنے لگا مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا کروں۔ مگر ذرا دیر میں سنبھل کر میں بھی نیچے پہنچ گئی۔ شہلا تیزی سےدوڑتی ہوئی میری جانب آتی دکھائی دی ۔ وہ مجھے ہی ڈھونڈ رہی تھی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک کونے میں لے گئی ۔ اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہنے لگی ۔ "یار یہ اسی قسم کی پارٹی ہے  یہاں یہ سب ہی چلتا ہے میں نے تم کو لانے سے پہلے بتا دیا تھا تھوڑا برداشت کرنا ہوگا ورنہ تمہارے ساتھ مجھے بھی اس پارٹی سے جانا پڑے گا۔" شہلا منمناتی آواز میں بولی
"شہلا ہم اور کتنی دیر رکیں گے یہاں؟" میں نے شہلا سے سوال پوچھا۔
" یار ابھی تو پارٹی شروع بھی نہیں ہوئی اور تم کو پتہ تو ہے میں کیوں آئی ہوں اس پارٹی میں، تم بھی تھوڑا انجوائے کرو یہاں کونسا تمہیں کوئی جانتا ہے جو تمہارے گھر والوں تک یہ سب پہنچا دے گا۔" شہلا نے جواب دیا۔
میں چپ چاپ شہلا کی شکل دیکھنے لگی "اچھا مجھے تھوڑی دیر اکیلا چھوڑ دو پلیز!" میں نے بہت سنجیدگی سے شہلا کو جواب دیا۔
شہلا چلی گئی۔ میں بیٹھی پورے واقعے پر غور کر رہی تھی مجھے ابھی تک اپنے ہونٹو ں اور کولہے پر سلمان محسوس ہو رہا تھا تپش تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔مگر مجھے غصہ بھی تھا۔میں جیسے جیسے سوچتی جاتی تھی ویسے ویسے میرا غصہ کم ہوتا جاتا تھا۔ پھر ذرا دیر بعد میں بالکل نارمل تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ مگر بار بار سلمان کا خیال اسکا کس کرنا اور مجھے اس بے باکی سے چھونا اچھا لگنے لگا تھا۔ اسکی وجہ شاید مسلسل ڈانس پارٹی میں ناچتے ہوئے لوگوں کو انکے مخصوص اعضا چھوتے ہوئے  اور کس کرتے ہوئے دیکھنا تھا۔ اچانک مجھے سلمان نظر آیا وہ علی سے کچھ بات کر رہا تھا۔پھر وہ واپس ہوا اور ایک بار پھر سے ٹیرس کی جانب بڑھنے لگا ۔اچانک مجھے نہ جانے کی سوجھی اور میں اسکے پیچھے چل پڑی سیڑھیوں تک پہنچا تو سلمان وہاں نہیں تھا ۔ میں آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر پہنچی تو دیکھا کہ سلمان میری طرف پیٹھ کر کے گرل پر ہاتھ رکھے باہر کی جانب دیکھ رہا ہے میں نے ادھر ادھر دیکھا تو چھت پر سلمان اور میرے علاوہ کسی اور کی موجودگی کا احساس نہ ہوا۔ میں سلمان کے پاس پہنچی اور اسکو آواز دی اور کہا "سوری میں کچھ زیادہ بدتمیزی کرگئی۔" میں نے نظریں جھکا کر سلمان سے کہا۔ اصولاً تو سلمان کو معافی مانگنی تھی کیونکہ وہ حد سے بڑھا تھا۔ مگر مجھے اب اسکا چومنا اور دبانا اچھا لگنے لگا تھا اور دل کر رہا تھا کہ ایک بار پھر سے ایسا ہو۔سلمان نے ایک دم گھوم کر پیچھے مجھے دیکھا اور کچھ کہے بنا آگے بڑھ کر مجھے گلے سے لگایامیں بھی سلمان سے نہ چاہتے ہو ئے لپٹ گئی۔ پھر سلمان کے ہاتھ مجھے اپنی کمر سے نیچے کولہوں تک رینگتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اب میرے بدن میں پھر وہ ہی کرنٹ اور تپش بڑھنے لگی۔جس میں بھرپور لذت کا احساس تھا۔ذرا دیر میں سلمان میرے ہونٹ ایسے چوس رہا تھا جیسے واقعی ان میں کچھ رس نکل رہا ہو اور وہ اسے مزید پینا چاہتا ہو۔ پھر سلمان مجھ سے الگ ہوا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے نیچے لے جانے لگا۔ میں بھی چپ چاپ اسکے ساتھ چل پڑی میں اپنی زندگی کا مزہ لوٹنا چاہتی تھی۔ مگر اندازہ نہیں تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ وہ رات  میری زندگی بدل گئی۔
سلمان مجھے لے کر نیچے اترا اور ڈانس فلور پر جانے کے بجائے ایک اوپر کے فلور پر ہی رکا اور ایک کمرے کا دروازہ کھول کر مجھے لے کر اندر داخل ہوگیا۔اندر اندھیرا تھا صرف ایک نائٹ بلب تھا جو جل رہا تھا وہ ایک بیڈ روم تھا۔ سلمان نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بیڈ پر بٹھایا۔ اور میرے برابر بیٹھ کر دوبارہ میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا اتنی دیر سے ہم دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی بس لگتا تھا جیسے کسی جادو کے اثر سے میں سلمان کا ساتھ دئے جارہی ہوں۔سلمان کی ہمت بڑھتی جارہی تھی  اس نے اب میرے مموں کو دبانا شروع کردیا تھا پہلے تو مجھے تھوڑا درد کا احساس ہوا مگر ذرا دیر بعد ہی مجھے وہ لذت حاصل ہونے لگی جسکا تصور بھی  نہیں کیا جاسکتا۔ سلمان نے مزید ہمت کر کے میری شرٹ کے پیچھے زپ کو کھول دیا میری شرٹ ڈھیلی ہو کر میرے کندھوں سے نیچے ہوگئی جس سے میرے مموں کے بیچ کی دراڑ سلمان کی نظروں کے سامنے تھی۔سلمان نے میری شرٹ کو اور نیچے کر کے اپنے ہونٹ میرے مموں پر رکھے اور انکو چوسنے لگا۔ یہ وہ لمحات تھے زندگی کے جو میں پہلی بار محسوس کر رہی تھی۔ مجھے احساس نہیں تھا کہ میں کیا کر رہی ہوں بس ایک نشہ تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ سلمان نے مجھے کھڑا کیا اور میری پوری شرٹ اتار دی اب میں اسکے سامنے بریزر میں کھڑی تھی۔ مگر شرم نام کی کوئی چیز میرے دماغ میں نہ تھی۔اب سلمان نے جلدی سے اپنی شرٹ اتار کر پھینکی اور پھر پھرتی کے ساتھ اپنی جینز بھی اتار دی اب وہ صرف انڈر ویئر میں میرے سامنے کھڑا تھا۔ پھر سلمان آگے بڑھا اور اس نے میرے شلوار کو بھی اتار پھینکا اور تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے میرا بریزر اور میں پینٹی بھی اتار پھینکی اب میں مادر زاد ننگی اسکے سامنے تھی مگر میرے سامنے بس میرے خوابوں کا شہزادہ تھا۔ مجھے کچھ اور سجھائی نہیں دے رہا تھا اب سلمان نے بھی اپنی انڈرویر اتاری وہ بھی میری طرح ننگا میرے سامنے کھڑا تھا۔ وہ مجھ سے لپٹا اور مجھے لے کر بیڈ پر گر گیا اسکا تنا ہوا لنڈ میری چوت کے منہ پر کسنگ کر رہا تھا ۔ یہ ایک اور طرح کا نشہ میرے دماغ پر چھا رہا تھا۔ کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور دو لڑکے اندر داخل ہوئے مجھے جیسے ہوش آگیا مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی وہ اندر داخل ہوئے اور انہوں نے دروازہ اندر سے لاک کردیا۔میں نے جب انہیں دیکھا تب تک وہ بھی کپڑوں سے آزاد ہوچکے تھے ایک ساتھ تین لنڈ میرے لیے تیار کھڑے تھے میں نے سلمان کی جانب دیکھا وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ اس نے کہا یہ میرے دوست ہیں ہم جو بھی کھاتے ہیں ساتھ مل کر کھاتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ تینوں مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مجھے بری طرح چومنے چوسنے اور کاٹنے لگے۔ میں بے تحاشہ رونے لگی تھی۔ مگر میری آواز سننے والا کوئی نہ تھا سوائے ان تینوں کے۔وہ مجھے درندوں کی طرح بھنبھوڑ رہے تھے۔ میں ان سے رحم کی بھیک مانگتی رہی۔مگر سلمان سمیت کسی نے بھی مجھ پر رحم نہ کیا، رفتہ رفتہ انکے اس عمل میں تھوڑی تہذیب شامل ہونے لگی میرا رونا بھی کسی حد تک کم ہوگیا تھا۔ اب مجھ پر ایک بار پھر سے مستی سوار ہونے لگی تھی۔ ذرا دیر بعد وہ تینوں کھڑے ہوئے تب تک میں بالکل مست ہوچکی تھی۔سلمان نے کہا کرن دیکھو تم اگر ہمارے ساتھ تعاون کروگی تو مزے لو گی زندگی کے ورنہ پھر ہم کو جنگلیوں کو روپ دھارنا پڑے گا۔میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں کیونکہ وہ تین جوان لڑکے تھے انکے لمبے موٹے تنے ہوئے لنڈ دیکھ دیکھ کر مجھے خوف محسوس ہو رہا تھا میں سوچ بھی نہیں صکتی تھی کہ ایسا بھی کچھ ہونا ہے۔مگر اب میرا بچنا مشکل ہی تھا۔سو میں نے خود کو انکے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔سلمان نے میری خاموشی سے یہ ہی اندازہ لگایا کہ میں انکے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہوں۔اب پہلی باری سلمان نے لی اور اپنا پھنپھناتا ہوا لنڈ لے کر میرے اور چڑھ گیا۔ میری دونوں ٹانگیں کھول کر اس نے لنڈ کو میری چوت کے منہ پر رکھا اور ہلکا سا دباؤ ڈالا تو اسکا لنڈ تھوڑا اندر داخل ہوا کیونکہ میری چوت بھی انکے چوسنے سے نہ صرف انکے تھوک سے گیلی تھی نہ جانے کب سے اپنا پانی بھی چھوڑ رہی تھی۔ سلمان کالنڈ کافی سخت اور موٹا تھا۔ اور وہ کسی گرم سلاخ کی طرح دہک رہا تھا میری چوت میں جاتے ہی مجھے تکلیف کا احساس تو ہوا مگر ساتھ ہی پورے بدن میں جیسے کرنٹ سا دوڑنے لگا۔میں اس تکلیف کو برداشت کرتی رہی پھر سلمان نے لنڈ کو اسی پوزیشن میں اندر باہر کیا اور اسی طرح اندر باہر کرتے کرتے ایک جھٹکے سے پورا لنڈ میری چوت میں داخل کر دیا میں اب بالکل بھی کنواری باقی نہ رہی تھی۔میری چوت سے تکلیف کی ٹیسیں اٹھ رہی تھی مگر سلمان لنڈ کو باہر نکالنے کے لیے تیار نہ تھا۔سلمان نے میری منت سماجت کو سن کر کہا "میری جان صبر کرو ابھی تم کو مزید دو لنڈ برداشت کرنے ہیں۔" میں سلمان کی بات سن کر دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی کہ کیوں میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔اب سلمان نے ذرا دیر بعد میری بھر پور چدائی شروع کردی۔ سلمان کا ہر ہر جھٹکا مجھے نشے کی انتہا پر لے جا رہا تھا۔پھر سلمان نے ایک لڑکے کو اشارہ کیا وہ فوراً ایک ٹیبل کی دراز کی جانب بڑھا اور وہاں سے ایک ٹیبلیٹ نکال کر میرے قریب آیا تو سلمان مجھ سے الگ ہوگیا۔سلمان نے کہا تم کو ہم تینوں کے لنڈ کا لاوا اپنی چوت میں پینا ہے سو یہ ٹیبلیٹ کھا لو تاکہ تم ہم میں سے کسی کے بچے کی ماں نہ بن سکو لیکن اگر تم شادی سے پہلے ماں بننا چاہتی ہو تو ٹھیک ہے نہ کھاؤ یہ ٹیبلیٹ۔میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی اور اس لڑکے کے ہاتھ سے ٹیبلیٹ جھپٹ لی سلمان نے پانی کا ایک گلاس بھر کر مجھے دیا اور کہا یہ لو میری رانی کھاؤ اس ٹیبلیٹ کو اور پھر تیار ہو جاؤ مزے کے لیے۔ میں نے پانی کا گلاس سلمان سے لے کر ٹیبلیٹ نگلی اور گلاس ایک طرف رکھ کر انکی جانب دیکھنےلگی۔سلمان نے کہا تم ہو بہت خوبصورت دل آگیا ہے تم پر۔یہ کہہ کر سلمان ایک بار پھر میرے اوپر چڑھا اور مجھے زبردستی لٹا دیا۔ایک بار پھر سے سلمان کا لنڈ میری چوت میں داخل ہوچکا تھا اور وہ ہی مسلمل طاقت ور جھٹکے جو مجھے ایک بار پھر سے آسمان کی سیر کروا رہے تھے۔ اسی اثنا میں سلمان کے لنڈ نے اپنی کھولتی کو ہومنی اگلنا شروع کی جس سے میرے جسم کی تپش مزید بڑھی اور مجھے ایسا لگا جیسے مجھے تیز بخار ہے۔بہرحال سلمان تھوڑی دیر تک میری چوت کو اپنی منی سے بھرتا رہا پھر مجھ پر سے ہٹ گیا ، سلمان کے ہٹتے ہی دوسرا ایک لڑکا جس نے مجھےٹیبلیٹ دی تھی وہ آکر بیڈ پر سیدھا لیٹا اور مجھے کہا میرا لنڈ چوسو مجھے اس سے کراہیت محسوس ہوئی تو سلمان نے کہا دیکھو کرن ہم کو دوبارہ جنگلی بننے پر مجبور نہ کرو ایسا نہ ہو کہ تم اپنے گھر والوں کو جواب دینے کے قابل بھی نہ رہو۔ابھی تک جو کچھ بھی ہوا ہے وہ جب تک تم کسی کہ نہ بتاؤ کسی کو معلوم نہ ہو سکےگا ۔ سلمان کی یہ دھمکی اثر کر گئی ۔ میں اٹھی اور لیٹے لیٹے ہی اسکا لنڈ ہاتھ میں لے  کر منہ میں ڈالا اور لولی پوپ کی طرح چوسنا شروع کردیا۔ ذرا سی محنت کے بعد ہی وہ لنڈ تو ایک دم کسی سلاخ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ اب اس لڑکے نے کہا چلو اب اس پر اس طرح بیٹھو کہ یہ لنڈ تمہاری چوت میں ہونا چاہیے۔ میں نے ایسا ہی کیا بلکہ لنڈ کو پکڑ کر اپنی چوت میں داخل کیا اور اس پر سوار ہوگئی۔ " اب آہستہ آہستہ ایسے اچھلو جیسے گھوڑے پر بیٹھی ہو۔" اس لڑکے نے ایک بار پھر حکم دیا میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنے لگی ۔ مجھے بھی اس طرح مزہ آنے لگا تھا۔اب تو میں تقریباً خود ہی رنڈی بننے لگی تھی۔اب اس لڑکے نے مجھے اپنی جانب کھینچا اور میرے ممے چوسنے لگا جس سے میرا اچھلنا بند ہوگیا۔ اسی دوران وہ تیسرا لڑکا جو ابھی تک اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا وہ میرے پیچھے آیا اور اپنا تنا ہوا لنڈ میری گانڈکے منہ پر رکھ کر اسے اندر دبایا مجھے محسوس ہوا کہ اس نے اپنے لنڈ پر کچھ کریم جیسی چیز لگائی ہے جو کہ کافی چکنی ہے اسکا لنڈ بالکل تھوڑا سا میری گانڈ میں گیا ۔ مگر میں تکلیف سے تڑپ اٹھی مگر وہ لڑکا جو میرے ممے چوسنے میں لگا تھا اس نے مجھے دونوں ہاتھوں سے جکڑا ہوا تھا مجھے اٹھنے نہ دیا۔ بس اب میں بالکل بے بس اور انکے رحم و کرم پر تھی۔جو لڑکا پیچھے سے میری گانڈ میں لنڈ ڈال رہا تھا اس نے مزید انتظار نہ کیا اور زور دار جھٹکے لگاتے ہوئے پورا لنڈ میری گانڈ میں داخل کردیا ، پہلے میری چوت پھاڑی گئی تھی اور اب گانڈ بھی پھاڑ دی گئی تھی۔اب میری چوت اور گانڈ میں دو موٹے موٹے لمبے لنڈ موجود تھے۔میری آنکھوں سے تکلیف کی وجہ سے آنسو رواں تھے۔مگر وہ رحم کرنے کو تیار نہ تھے۔ پھر ان دونوں نے اپنے زور دار جھٹکے اسٹارٹ کردئے۔ اسی دوران سلمان بھی اٹھ کر کھڑا ہوا اور میرے منہ کی جانب آیا اور اپنے لنڈ کو میرے من کے قریب لا کر بولا اسکو بھی لے لو منہ میں کیوں ایک سوراخ خالی رکھا ہوا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے زبردستی لنڈ کو میرے منہ میں داخل کیا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اسکا لنڈ چوسنے لگی۔ذرا دیر بعد اسکا لنڈ پھر سے سخت ہونا شروع ہوگیا۔ بس اب تین لنڈ ایک ہی وقت میں کسی نہ کسی طرح میرے جسم میں داخل تھے۔ اور انکے جھٹکے مجھے بے حال کیئے ہوئے تھے۔پھر تقریباً دس منٹ کی زبردست چدائی کے بعد ان تینوں کے لنڈ نے ایک ساتھ لاوا اگلنا شروع کیا۔اور مجھے ایسا لگا جیسے میرا جسم تپش کی وجہ سے پگھل کر پانی بن جائے گا۔مگر ان لوگوں نے جب تک اپنے لنڈ میرے جسم سے علیحدہ نہ کئے جب تک انکے لنڈ نے لاوے کا آخری قطرہ تک میرے جسم میں نہ چھوڑ دیا۔بس اسکے بعد ہم سب ہی بے حال تھے۔ میرا تو وہ حال تھا کہ میں سیدھی طرح کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی۔سلمان اور اسکے دوست مجھے سے الگ ہوئے اور اپنے اپنے کپڑے پہننے لگے۔جب وہ کپڑے پہن چکے تو سلمان نے کسی کو فون کیا ذرا دیر میں ہی شہلا علی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی اور میرا حال دیکھ کر سلمان پر برس پڑی " تم جنگلی ہو یہ کیا کیا تم نے یہ کنواری تھی اس نے کبھی سیکس نہیں کیا تھا تم لوگو ں  نے بہت برا کیا ہے اسکے ساتھ میں اسکے گھر والوں کو کیا جواب دونگی۔" شہلا بری طرح سلمان پر برس رہی تھی۔
"فکر نہ کرو جانے من  تمہاری دوست ابھی ماں نہیں بنے گی۔ مگر ہم کو یاد ضرور رکھے گی۔" سلمان نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔
شہلا میری جانب بڑھی اور مجھےسے کہا" سوری یار مجھ سے غلطی ہوئی جو میں تم کو یہاں لے کر آئی۔" شہلا نے معافی مانگتے ہوئے کہا۔
بہرحال وہ چاروں تو کمرے سے نکل گئے ۔ پھر شہلا نے مجھے کسی طرح کپڑے پہننے میں مدد دی ۔ اور میں لڑکھڑاتی ہوئی شہلا کے ساتھ باہر نکلی اور سیدھی جا کر کار میں بیٹھی۔شہلا اور میں اس بنگلے سے نکلے پھر شہلا نے مجھے راستے سے اچھا سا ڈنر کروایا۔ اسکے بعد مجھے گھر ڈراپ کیا۔ مگر دوستو اس دن کے بعد میں بالکل رنڈی ہی بن گئی سلمان اور اسکے دوستوں کے ساتھ اسکے بعد بھی کافی دفعہ سیکس کیا بلکہ جو جو مجھے ملا میں اسکے ساتھ سیکس کرتی گئی ۔یہاں تک کے شادی کے بعد بھی میں نے دوسرے مردوں کو نہ چھوڑا خود ہی سوچیں آپ لوگ جسکا آغاز ہی تین طاقتور لنڈ کے ساتھ ہوا ہو وہ بھلا کس طرح ایک لنڈ سے مطمئن رہ سکتی ہے

7 comments:

  1. any female for ------ plz call me 0333-4848555

    ReplyDelete
  2. Any hot young boy call me and fuck me
    0324-4549456 PLZ CALL ME ONLY YOUNG LAHORE BOYS.. I M SO HOT CALL ME I M WAITING BOYS,....

    ReplyDelete
  3. mera name kashif he umer 38 he koi bhi karachi ki anti , ya girl chudwana he to meri id kiran_afshan07@yahoo.com

    ReplyDelete
  4. mera name kashif he umer 38 he koi bhi karachi ki anti , ya girl chudwana he to meri id kiran_afshan07@yahoo.com

    ReplyDelete
  5. wakiye ee kiran tum aab randi ho 3 3 lund nice

    ReplyDelete
  6. kafi achi kahani ha app ki sun k to mein parshan ho gya janaab waqay hi boht ziyadti hoi ha app k sath hahahahahahahha lipskiss833@yahoo.com

    ReplyDelete