Saturday 27 August 2011

سیکس کی ڈیفی نیشن


امریکا میں سیکس کی ڈیفی نیشن اور مسلم ہم جنس پرست
بی بی سی کی خصوصی رپورٹ
امریکہ آکے جو پہلا کام ہوا وہ تھا بہت سے خیالات کی ڈیفینشنز میں تبدیلی۔ ان میں سے پہلی تبدیلی ہوئی فحاشی کی ڈیفینشن میں۔ پاکستان میں جب تک تھے تو مخلوط میرتھن دوڑ بھی فحاشی لگتی تھی۔ اپنے آبائی شہر میں دوپٹہ نہ پہننا بھی فحاشی کے ضمن میں آتا تھا اور میری پھوپھی کے گاؤں میں تو عورت کی آواز گھر سے باہر جانا بھی فحاشی تھا۔
امریکہ میں سیکس کی ڈیفینشن بالکل بھوک جیسی ہے۔ جیسے پاکستان میں کبھی ہمیں چلتے پھرتے بھوک لگتی ہے تو کبھی کسی ریڑھی سے خرید کر کچھ کھا لیا، کبھی پٹھان کے ہوٹل پر چائے پی لی تو کبھی ڈھابے سے کھا لیا۔ شہر آئے تو میک ڈانلڈس، کے ایف سی اور ہوٹلز کی باری آئی۔
تو یہاں امریکہ میں بالکل یہی ڈیفینشن سیکس کی ہے۔ جہاں چاہا، جب چاہا، جیسے چاہا (سرِ عام یا بندھے چھپے)، جس کے ساتھ چاہا (جنس کی بھی کوئی قید نہیں) سیر ہو گئے اور چلتے بنے۔ دو دن بعد یاد بھی نہیں کہ کس ڈھابے سے کھایا تھا۔
یہاں جو سوال مجھ سے سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ تھا کہ ’مسلمز چار شادیاں کر سکتے ہیں؟‘۔ سب سے زیادہ امریکیوں کو حیرت اسی بات پر ہوتی ہے۔ تو میں ان سے یہی پوچھتا ہوں کہ آپ زندگی میں کتنی گرل فرینڈس رکھ سکتے ہیں (میں یہاں گرل فرینڈس کی تعریف کرنے سے قاصر ہوں) تو وہ ہمیشہ مسکرا کر کہتے ہیں ’سکائی اِز دی لِمِٹ‘ یعنی کوئی حد نہیں۔ اور چار شادیوں پر اعتراض ہے۔ قانونی طور پر آپ امریکہ میں ایک سے زیادہ بیوی نہیں رکھ سکتے، بھلے ہی آپ مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔
جانوروں میں خنزیر وہ واحد جانور ہے جو ہم جنس بھی ہوتا ہے۔ خنزیر ہی یہ لوگ کھاتے ہیں سب سے زیادہ شوق سے اور اسی کے جیسے ہو بھی جاتے ہیں۔ خیر میں سمجھتا تھا کہ یہ سب کرتوت امریکیوں یا انگریزوں کی ہی ہوتی ہیں، کوئی مسلم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سین فرانسِسکو جاکر پتا لگا کہ وہاں ہر سال ’مسلمز گیز اینڈ لیسبینز کانفرنس‘ ہوتی ہے۔ (یہاں یہ بتاتا چلوں کہ امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی سب سے زیادہ تعداد سین فرانسِسکو، کیلی فورنیا میں ہی ہے۔)
ایسی ہی کانفرنسیں نیو یارک، آرلینڈو اور سین ڈیاگو میں بھی ہوتی ہیں۔ ایک کانفرنس کے چیئر تو لاہور کے ایک چھبیس سالہ نوجوان ہیں، جنہوں نے پاکستان چھوڑا ہی اس وجہ سے کہ ’وہاں ان کی کوئی نہیں سنتا‘۔
کیلی فورنیا میں ہر سال ’نیوڈ واک‘ ریس بھی ہوتی ہے (یہ اسے ’کلوتھنگ آپشنل‘ کے نام سے ایڈورٹائز کرتے ہیں۔) جس میں مردو خواتین کپڑوں کے بغیر بھاگ کر ’فری امریکہ‘ کا پرچار کرتے ہیں۔ میں سن کر پہلے تو بہت ڈرا، پھر خوب ہنسا۔ ڈرا اس لیے کہ اللہ کے یہاں کیا منہہ دکھائیں گے یہ لوگ، اور ہنسا اس لیے کہ اگر یہاں ایم ایم اے کی حکومت ہوتی جو مخلوط میرتھن کے بھی خلاف ہیں تو ان کا کیا ہوتا؟
ابھی اسی حیرت میں ڈوبا تھا کہ گے اور لیسبین مسلمز کے لیبل کو کیسے تسلیم کروں، کہ اتنے میں کینیڈین مسلم ایسوسی ایشن کا بیان جاری ہوا، انسانی حقوق کے نام پر، کہ کینیڈا کے مسلم گے اور لیسبینم کے ساتھ ہیں اور انکے تعلق کو قبول کرتے ہیں، ہر شخص کو پوری آزادی ہونی چاہیئے وغیرہ۔
پھر کینیڈا سے ہی ارشاد منجی نے، جو کہ وہاں صحافی ہیں، ایک کتاب لکھ ڈالی ’ٹربل وِتھ اسلام‘۔ وہ کھلے عام کہتی ہیں کہ وہ لیسبین ہیں اور انہیں اصرار ہے کہ یہ سب ٹھیک ہے۔
مشرق وسطی والے بھی کم نہیں۔ مِڈل ایسٹ گے انیڈ لسبین سوسائیٹی نے تو ان کے مسائل پر ’آئی ایگزسٹ‘ کے نام سے پوری ڈاکیومنٹری فلم ہی بنا ڈالی۔
اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کی بڑی تعداد امریکہ آ گئی تھی ’اسائیلم‘ پر۔ بالکل اسی طر آج کل این جی اوز ہم جنسوں کو یہ سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ اگر آپ ہم جنس ہیں تو آپ بہت آسانی سے امریکہ آ سکتے ہیں۔
جہاں ہم ہم جنسوں کا رونا رو رہے ہیں وہاں سوشل سائنسس کے پروفیسر یہ سوچ رہے ہیں کہ شادی کے بعد انہیں کیا نام دیا جائے جیسے ’مسٹر اینڈ مسز‘ ہوتا ہے؟

2 comments:

  1. gandoo ya female (girl / aunty ) sex k leay rabta kr skti hy
    hotssexy803@yahoo.com
    0315-7188777

    ReplyDelete
  2. hi any anty or girl like just friendship contect me
    flovely887@yahoo.com belos dosti jasi aap chahin

    ReplyDelete