بات کچھ سال پہلے کی ہے جب میں 18 سال کا تھا اور بارویں میں پڑھتا تھا۔
ایک بار میں اپنے کچھ دور پار کے رشتہ داروں کی شادی پر کراچی گیا۔ میں چونکہ بہت کم جاتا ہوں اسی لئے زیادہ لوگوں کو جانتا نہیں تھا۔
خیر شادی والے گھر میں پہنچ کر پتہ چلا کہ شادی بالکل ساتھ والے گھر میں ہو رہی ہے اور تقریبا” سارے مہمان کامن ہیں۔ دولہا اور دلہن آپس میں کزن ہیں۔ جبکہ دولہا میرا بھی کزن تھا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کافی افراتفری مچی ہوئی ہے اور لوگ آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ یعنی وہی سین جو عام طور پر شادیوں مین ہوتا ہے۔
میں کچھ دیر تو ادھر ادھر وقت ضائع کرتا رہا پھر اٹھ کر فضول میں گھومنے لگا۔ میری یہ حالت دیکھ کر ایک آنٹی جو پتہ نہیں میری کیا لگتی تھیں کو رحم آ گیا۔
انھوں نے ایک مجھے لڑکی والوں کے گھر بھیج دیا کہ وہاں میرے کافی ہم عمر تھے۔
یہاں آ کر لگا کہ جنت میں آ گیا ہوں کہ جہاں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں بکھری ہوئی ہیں۔
کوئی ڈانس پریکٹیس کر رہی ہے تو کوئی کپڑے استری کوئی سامان پیک کر رہی ہے تو کوئی میک اپ۔کوئی نہا رہی ہے تو کپڑےٹرائی کر رہی ہے۔ غرض بہار ہی بہار تھی۔
دلہن کو دیکھا تو اپنی قسمت پہ رونا آیا مگر پھر دل نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں
"چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں"
یہاں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مجھے اپنی خوش قسمتی اور پرسنالٹی پر فخر ہوا، جو جلد ہی ختم ہوا کیونکہ یہ سب لڑکیاں کسی لڑکے کو ترس رہی تھیں۔
مجھ سے پوچھا کہ موٹر سائیکل چلا لیتے ہو؟
میں نے فخر سے کہا: ایسا ویسا پورے لاہور میں مجھ سے اچھا بائیکر پیدا نہیں ہوا۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ بڑے بول فورا” سزا پاتے ہیں۔ میرا ٹیسٹ ایسے لیا گیا کہ شام تک گانڈ بائیک سے علیحدہ نہیں ہوئی۔
گھر سے بازار تک کا راستہ اس اتنی بار دیکھا کہ ھاتھ کی لکیروں کی طرح یاد ہو گیا۔
شام تک لڑکیوں نے میری وہ حالت کی جو ریپ کے بعد ہوتی ہے۔ میں بیٹھنے تو کیا لیٹنے کے قابل نہ رہا۔
آخر کار ایک بزرگ خاتون کو مجھ پر ترس آیا اور انھوں نے مجھے چند لڑکیوں کے ساتھ دولہا دولہن کا کمرا سجانے بھیجا۔ چند خود کو بہت سمارٹ سمجھنے والی لڑکیاں میرے ساتھ آئی اور مجھے حکم دینے لگیں ۔ میں پھولوں کی لڑیاں لگانے لگا۔
اتنے میں شور مچ گیا کہ تیار ہو جاؤ مہندی کی رسم کے لئے۔
لڑکیاں وہاں سے غائب ہونے لگیں تو میں نے شور مچا دیا۔ آخر کار میں یہ مزدوری جن کی قربت کے لئے کر رہا تھا وہی اڑن چھو ہو رہی تھیں۔
میرے شور مچانے پر انھوں نے ایک لڑکی جو ان کی کتاب میں بچی تھی میرے پاس چھوڑی اور دلہن کے گھربھاگ گئیں۔
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح
یہ سوچ کہ میں نے اس بچی کا آنکھوں سے پوسٹ مارٹم کیا۔
پہلے تو اسے بچی سمجھنے والوں کی عقل اور آنکھوں پر شک کیا۔
اس کی عمر 15-16 سال تھی دبلی پتلی، سانولا رنگ، شادی کی مناسبت سے شوخ بلکہ کسی قدر سیکسی ٹراؤزر اور شرٹ میں تھی۔ جو چیز سب سے خاص تھی اس میں وہ تھا اس کا چہرا جو کسی طرح بھی اس کو اس کی عمر کے مطابق ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
اس کے چہرے پر بھی معصومیت نہیں تھی۔
میں نے اس سے نام ارو کلاس وغیرہ پوچھا۔
”میرا نام سارا ہے۔ میں نائیتھ میں پڑھتی ہوں۔” وہ ذرا شرما کے بولی۔
"سارا میں فیصل ہوں اور سیکنڈ ائیر میں پڑھتا ہوں" میں بولا۔
"سارا میرا خیال ہے کہ اب بس کی جائے کیونکہ میں بہت تھک گیا ہوں۔"
وہ بولی: "نہیں باجی نے مجھ سےکہا ہے لگوا کے آنا۔"
میں نے کہا: میرا کیا قصور ہے مزے کوئی لے گا کریڈٹ وہ تھماری باجیاں اور محنت میری لگ رہی ہے۔
وہ ہنس دی: "لگانا تو پڑے گا۔"
میں نے کہا :" اور تمھیں کیوں چھوڑ گئیں ہیں یہاں میری نگرانی کے لئے۔"
"نہیں اس لئے کہ کوئی کام ہو تو کروا لوں مگر ہو وہ جو لڑکیوں کے کرنے والا ہو"۔وہ شوخ ہو کر بولی۔
میں نے کہا: کوئی نہیں ابھی تمھیں لڑکیوں کے کرنے والا کام کہوں گا اور تم مکر جاؤ گی۔
وہ بولی: بالکل نہیں پرامس میں نہیں مکروں گی۔
مجھے لگا کہ جیسا اچانک ایک مچھلی خود ہی کانٹے میں آ گئی ہے۔ اب میں نے اسے اسی نیت سے دیکھا اور اسے ہر لحاظ سے چودنے کے قابل پایا۔
میں نے اب سوچ کے جواب دیا:چلو یہ بھی ٹرائی لیتے ہیں مگر یاد رکھنا اگر مکر گئی تو میں سمجھوں گا کہ تم میں وہ دم نہیں اور تم لڑکی ہی نہیں۔
اب میں نے اسے کہا کہ دروازہ بند کر دو اور یہاں میرے قریب آ جاؤ۔ میں کام بھی کرتا رہا اور اس سے باتیں بھی۔
میں نے اس سے پوچھا : سارا پتہ نہیں لوگ یہ سیج کیوں سجاتے ہیں ہوتا تو بس سونا ہی ہے نا؟
وہ بولی: نہیں یہ یادگار رات ہوتی ہے زندگی بھر یاد رہتی ہے۔
اس میں یادگار والی کیا بات ہوتی ہے؟
وہ ذرا کنفیوز ہو کر بولی : بس ایسے ہی۔
الٹا یہ رات تو تکلیف دے سکتی ہے۔
وہ بولی: کیسے
میں نے کہا: ارے بھئی سردی لگ سکتی ہے پھولوں سے دلہن کو کوئی کانٹا چب سکتا ہے۔
وہ بولی: کانٹا کیسے چبے سکتا ہے یہاں ایسا تو کوئی کانٹا نہیں۔
میں بولا: ڈئیر جب کپڑے بہنے بغیر ان پھولوں پر سونا ہو تو سردی اور کانٹا دونوں ہو سکتے ہیں۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ میں اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا یہ وہ حالت تھی کہ وہ سوچ رہی تھی کہ اس موضوع کو آگے چلاؤں یا نہیں کیوں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
میں پوچھا: کیا ہوا کیا تمھیں نہیں پتہ تھا کہ سہاگ رات میں کیا ہوتا ہے؟
وہ آہستہ سے بولی: نہیں۔
مجھے اپنی کامیابی صاف نظر آگئی۔ اس کا نہ جانا اور اس کو ختم نہ کرنا مجھے سب بتا گیا تھا۔
سوری یار! مجھے نہیں معلوم تھا کہ تھمیں نہیں پتہ۔ بس بات ذرا ایسی ہے کہ لڑکیوں کو تو پتہ ہونا چائیے۔ مگر جب وہ بڑی ہو جائیں۔ کچھ عرصے بعد تمھیں کوئی نہ کوئی بتا ہی دے گا۔ میں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگ جائے۔
وہ خاموش رہی۔
میں نے اگلا وار کیا: اگر تم وعدہ کرو کہ کسی کو میرا نہیں بتاؤ گی تو میں بتاتا ہوں۔
وہ کچھ نہ بولی مگر اٹھ کر بھی نہ گئی۔ اب میری ھمت فل بڑھ گئی۔
میں نے کہا: سارا تمھیں پیریڈز ہوتے ہیں نا؟
وہ بری طرح چونک گئی جیسے اس سوال کی امید نہ ہو۔ اس نے سر چھکا لیا۔
میں آہستہ سے بولا: اس جگہ کے اندر لڑکا اپنا یہ (میں نے پینٹ کے اوپر سے ھاتھ لگایا) ڈالتے ہیں۔.لڑکی کے اوپر لیٹ کر اندر باہر کرتے ہیں پھر اس سے مزا لیتے ہیں۔
وہ سر جھکا کے زمین دیکھتی رہی اور بولی: میں ابھی آتی ہوں۔
یہاں میں پریشان ہو گیا۔ اگر وہ نہ آئی تو گیم گئی۔
وہ واپس آ گئی تو اس طرح بیٹھ گئی۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں جن میں بعض ایسے فلمی سین جس میں سیکس تھا وہ اور ایسی دوسری باتیں کرنے لگا۔
اب وہ بھی مجھ سے اس متعلق کچھ کچھ پوچھنے لگی جیسے درد تو نہیں ہوتا۔ یہ کتنا لمبا ہوتا ہے وغیرہ۔
اتنے میں لائٹ چلی گئی۔ میں اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے جسم پر ھاتھ رکھا تو وہ ذرا ذرا کانپ رہا تھا۔
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟"
میں بولا: وہ جو لڑکی ہی کروا سکتی ہے۔
وہ بولی: کوئی آ جائے گا۔ اور اٹھ کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ایک آنٹی نے مجھے کہا کہ باہر آ جاؤ اند کیا کر رہے ہو۔ میں کہا کہ اسی بہانے ذرا آرام کر لیتا ہوں۔ آپ بس ذرا ایک کب چائے بھجوا دیں۔
دس منٹ بعد وہ چائے لیکر آئی۔ میں نے چائے لے لی اور کہا: سارا یہاں میرے پاس آ جاؤ۔
وہ بولی: نہیں کوئی آ جائے گا۔ سب باہر ہی ہیں۔
میں نے کہا: میں انتظار کر رہا ہوں تم آؤ ذرا دیکھ بھال کے ،یہاں اندھیرا ہے کوئی نہیں آئے گا۔
وہ چلی گئی اور 5 منٹ بعد یہ آ گئی۔ دروازہ اندر سے بند کر بیڈ کے قریب آ گئی۔
میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔وہ ذرا سا کسمسائی مگر کچھ ارو نہیں کیا۔
میں نے سیدھا اپنا ھاتھ اس کی کنٹ پر رکھ دیا جو حسب توقع گیلی تھی۔
میں نے اپنا ھاتھ اس کے ٹراؤزر کے اندر ڈال دیا
اس کی کنٹ کے دونوں ہونٹوں کو رگڑنے لگا۔
اس نے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر ہٹایا نہیں۔میں اس کے چہرے کو چومتا بھی رہا اور اس کی کنٹ مسلتا بھی رہا۔
اتنے میں کوئی کھٹکا ہوا اور ہم دونوں چونک کر علیحدہ ہوگئے۔ وہ فورا" بیڈ کے دوسری طرف کارپٹ پر لیٹ گئی۔ اس کی امی اندر آئی اور پوچھا:بیٹا سارا تو یہاں نہیں ہے؟
میں نے کہا: نہیں آنٹی وہ تو چائے دے کر چلی گئی شاید وہاں دلہن کے گھر گئی ہو۔
وہ بولیں؛ بیٹا ذرا بلا آؤ اس نے کپڑےبھی پہننے ہیں۔
ان کے جانے کے بعد وہ بھی جلدی میں باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر میں لائٹ بھی آ گئی۔ مہندی کی رسم شروع ہو گئی۔ سب عورتیں لڑکی والوں کے گھر چلی گئی۔
یہاں آنٹی نے مجھے کہا کہ میں سیج تیار کروں میرا کھانا وہ بھجوا دیں گی۔
میں اکیلا کام میں جت گیا۔
سارا میرا کھانا لے کر آئی۔
میں نے اسے کہا کہ وہ نظربچا کے آ جائے مگر وہ نہ مانی۔
آخر ایک بجے جب میں پوری طرح مایوس ہو چکا تھا وہ آ گئی۔اس کے ساتھ اس بہن اور بھائی بھی تھے۔ وہ انھیں نیچے ایک کمرے میں سلا کر میرے پاس آ گئی۔
تقریب اپنے پورے عروج پر تھی مرد باہر قناتوں میں تھے اور عورتیں اندر گھر میں۔ میرے پاس ٹائم کی کمی نہیں تھی کم از کم 2 گھنٹے تھے پھر بھی کوئی بھی آ سکتا تھا۔
آخر میں نے حل یہ نکالا کہ کھڑکی کھولی اور باہر نکل کے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ اندر آ کر لائٹ آف کر دی اور سارا کو لیکے بیڈ کے نیچے لیٹ گیا۔
وہ کافی ڈری ہوئی تھی اور مجھے بہت جلدی تھی اس کی مارنے کی۔
ایک بار میں اس کی سیل کھول لیتا پھر میں بعد میں بھی اس کو تسلی سے چود لیتا۔
میں نے اس کی شلوار اتار دی اور اپنی پینٹ بھی گھٹنوں تک اتار دی۔
اس کی کنٹ بالکل کنواری تھی اور اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔
میں نے آرام سے اپنی انگی اس کی کنٹ میں ڈالی۔
تھوڑے سے تردد سے انگی اندر چلی گئی۔ وہ ذرا ذرا سی آہیں بھرنے لگی۔
میں نے اس کی قمیض گردن تک اوپر کر دی اور اسے سیدھا لٹا کے اس اوپر لیٹ گیا۔
میرا وزن اس سے کافی زیادہ تھا مگر وہ پرداشت کر گئی۔ میں نے اپنا لن کنٹ رکھا تو وہ بوبی؛ فیصل درد تو نہیں گا؟
میں نے کہا: ہلکہ سا ہو گا مگر زیادہ نہیں۔
اب میں اپنا لن اس کے اندر دھکیلا وہ چلا اٹھی: پلیز نکالو مجھے درد ہو رہا ہے پلیز بھائی پلیز مجھے درد ہو رہا ہو۔ امی ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز فیصل پلیز۔
مجھ پر اب چودائی سوار تھی۔ میں بجائے نکالنے کے اور اندر ڈالا۔
وہ اب رونے لگی مگر میرے وزن اور بیڈ کے نیچے سے کوئی جائےفرار نہیں تھی۔
وہ اپنا خون دیکھ کر رونے لگی۔ مگر یہ بھی شکر تھا کہ خون کا بیڈ کے نیچے کارپٹ پر تھا۔
دو تین منٹ کے بعد میرا لن آسانی سے جانے لگا اور اس کی مزاحمت بھی کم ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھول دی اور ذرا تیزی سے چودنے لگا۔ وہ اور زور سے رونے لگی۔ میں نے اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا۔
اس کی ٹائٹ کنٹ اور کچھ سیکس پوزیشن کی وجہ سے میں 6-7 منٹ بعد ہی چھوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد میں بیڈ کے نیچے سے نکل آیا کوئی 2-3 منٹ بعد وہ بھی آ گئی۔
میں نے اسے چومنا چاہا تو اس نے جھٹک دیا۔
" یہ تھوڑا درد تھا۔ مجھے کتنا درد ہوا ہے معلوم ہے تمھیں۔" میں جا رہی ہوں" ۔
وہ مجھے چھوڑ کر جانے لگی مگر کیسے جاتی دروازہ تو باہر سے بند تھا۔
میں نے اسے روک لیا۔
دیکھو سارا ! میری جان ایسا کرنا پڑتا ہے اگر میں نکال لیتا تو تم کبھی بھی نہ ڈلوا سکتی۔ اب دیکھنا اگلی بار جب ہم ایسا کریں گے تو کتنا مزا آئے گا۔
وہ بھڑک کے بولی: اب میں نہیں کرواؤں گی۔
میں نے کہا: کروانا تو تمھیں کرنا پڑے گا ورنہ کہیں میری زبان سلپ ہو گئی تو۔ ۔ ۔ ۔
وہ ڈر گئی اور یہی میں چاہتا تھا۔
میں نے کہا: کل رات پھر مین تمھیں اسی طرح چودوں گا۔مرضی سے کرو گی تو مزا آئے گا اور اگر زبردستی کرنا پڑا تو جتنا درد آج ہوا ہے اس زیادہ ہوگا۔
یوں سمجھو میں اس کو پھاڑ دوں گا۔
وہ چلی گئی۔ میں کل کے لئے پلان بنانے لگا۔
ایک بار میں اپنے کچھ دور پار کے رشتہ داروں کی شادی پر کراچی گیا۔ میں چونکہ بہت کم جاتا ہوں اسی لئے زیادہ لوگوں کو جانتا نہیں تھا۔
خیر شادی والے گھر میں پہنچ کر پتہ چلا کہ شادی بالکل ساتھ والے گھر میں ہو رہی ہے اور تقریبا” سارے مہمان کامن ہیں۔ دولہا اور دلہن آپس میں کزن ہیں۔ جبکہ دولہا میرا بھی کزن تھا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کافی افراتفری مچی ہوئی ہے اور لوگ آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ یعنی وہی سین جو عام طور پر شادیوں مین ہوتا ہے۔
میں کچھ دیر تو ادھر ادھر وقت ضائع کرتا رہا پھر اٹھ کر فضول میں گھومنے لگا۔ میری یہ حالت دیکھ کر ایک آنٹی جو پتہ نہیں میری کیا لگتی تھیں کو رحم آ گیا۔
انھوں نے ایک مجھے لڑکی والوں کے گھر بھیج دیا کہ وہاں میرے کافی ہم عمر تھے۔
یہاں آ کر لگا کہ جنت میں آ گیا ہوں کہ جہاں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں بکھری ہوئی ہیں۔
کوئی ڈانس پریکٹیس کر رہی ہے تو کوئی کپڑے استری کوئی سامان پیک کر رہی ہے تو کوئی میک اپ۔کوئی نہا رہی ہے تو کپڑےٹرائی کر رہی ہے۔ غرض بہار ہی بہار تھی۔
دلہن کو دیکھا تو اپنی قسمت پہ رونا آیا مگر پھر دل نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں
"چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں"
یہاں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مجھے اپنی خوش قسمتی اور پرسنالٹی پر فخر ہوا، جو جلد ہی ختم ہوا کیونکہ یہ سب لڑکیاں کسی لڑکے کو ترس رہی تھیں۔
مجھ سے پوچھا کہ موٹر سائیکل چلا لیتے ہو؟
میں نے فخر سے کہا: ایسا ویسا پورے لاہور میں مجھ سے اچھا بائیکر پیدا نہیں ہوا۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ بڑے بول فورا” سزا پاتے ہیں۔ میرا ٹیسٹ ایسے لیا گیا کہ شام تک گانڈ بائیک سے علیحدہ نہیں ہوئی۔
گھر سے بازار تک کا راستہ اس اتنی بار دیکھا کہ ھاتھ کی لکیروں کی طرح یاد ہو گیا۔
شام تک لڑکیوں نے میری وہ حالت کی جو ریپ کے بعد ہوتی ہے۔ میں بیٹھنے تو کیا لیٹنے کے قابل نہ رہا۔
آخر کار ایک بزرگ خاتون کو مجھ پر ترس آیا اور انھوں نے مجھے چند لڑکیوں کے ساتھ دولہا دولہن کا کمرا سجانے بھیجا۔ چند خود کو بہت سمارٹ سمجھنے والی لڑکیاں میرے ساتھ آئی اور مجھے حکم دینے لگیں ۔ میں پھولوں کی لڑیاں لگانے لگا۔
اتنے میں شور مچ گیا کہ تیار ہو جاؤ مہندی کی رسم کے لئے۔
لڑکیاں وہاں سے غائب ہونے لگیں تو میں نے شور مچا دیا۔ آخر کار میں یہ مزدوری جن کی قربت کے لئے کر رہا تھا وہی اڑن چھو ہو رہی تھیں۔
میرے شور مچانے پر انھوں نے ایک لڑکی جو ان کی کتاب میں بچی تھی میرے پاس چھوڑی اور دلہن کے گھربھاگ گئیں۔
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح
یہ سوچ کہ میں نے اس بچی کا آنکھوں سے پوسٹ مارٹم کیا۔
پہلے تو اسے بچی سمجھنے والوں کی عقل اور آنکھوں پر شک کیا۔
اس کی عمر 15-16 سال تھی دبلی پتلی، سانولا رنگ، شادی کی مناسبت سے شوخ بلکہ کسی قدر سیکسی ٹراؤزر اور شرٹ میں تھی۔ جو چیز سب سے خاص تھی اس میں وہ تھا اس کا چہرا جو کسی طرح بھی اس کو اس کی عمر کے مطابق ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
اس کے چہرے پر بھی معصومیت نہیں تھی۔
میں نے اس سے نام ارو کلاس وغیرہ پوچھا۔
”میرا نام سارا ہے۔ میں نائیتھ میں پڑھتی ہوں۔” وہ ذرا شرما کے بولی۔
"سارا میں فیصل ہوں اور سیکنڈ ائیر میں پڑھتا ہوں" میں بولا۔
"سارا میرا خیال ہے کہ اب بس کی جائے کیونکہ میں بہت تھک گیا ہوں۔"
وہ بولی: "نہیں باجی نے مجھ سےکہا ہے لگوا کے آنا۔"
میں نے کہا: میرا کیا قصور ہے مزے کوئی لے گا کریڈٹ وہ تھماری باجیاں اور محنت میری لگ رہی ہے۔
وہ ہنس دی: "لگانا تو پڑے گا۔"
میں نے کہا :" اور تمھیں کیوں چھوڑ گئیں ہیں یہاں میری نگرانی کے لئے۔"
"نہیں اس لئے کہ کوئی کام ہو تو کروا لوں مگر ہو وہ جو لڑکیوں کے کرنے والا ہو"۔وہ شوخ ہو کر بولی۔
میں نے کہا: کوئی نہیں ابھی تمھیں لڑکیوں کے کرنے والا کام کہوں گا اور تم مکر جاؤ گی۔
وہ بولی: بالکل نہیں پرامس میں نہیں مکروں گی۔
مجھے لگا کہ جیسا اچانک ایک مچھلی خود ہی کانٹے میں آ گئی ہے۔ اب میں نے اسے اسی نیت سے دیکھا اور اسے ہر لحاظ سے چودنے کے قابل پایا۔
میں نے اب سوچ کے جواب دیا:چلو یہ بھی ٹرائی لیتے ہیں مگر یاد رکھنا اگر مکر گئی تو میں سمجھوں گا کہ تم میں وہ دم نہیں اور تم لڑکی ہی نہیں۔
اب میں نے اسے کہا کہ دروازہ بند کر دو اور یہاں میرے قریب آ جاؤ۔ میں کام بھی کرتا رہا اور اس سے باتیں بھی۔
میں نے اس سے پوچھا : سارا پتہ نہیں لوگ یہ سیج کیوں سجاتے ہیں ہوتا تو بس سونا ہی ہے نا؟
وہ بولی: نہیں یہ یادگار رات ہوتی ہے زندگی بھر یاد رہتی ہے۔
اس میں یادگار والی کیا بات ہوتی ہے؟
وہ ذرا کنفیوز ہو کر بولی : بس ایسے ہی۔
الٹا یہ رات تو تکلیف دے سکتی ہے۔
وہ بولی: کیسے
میں نے کہا: ارے بھئی سردی لگ سکتی ہے پھولوں سے دلہن کو کوئی کانٹا چب سکتا ہے۔
وہ بولی: کانٹا کیسے چبے سکتا ہے یہاں ایسا تو کوئی کانٹا نہیں۔
میں بولا: ڈئیر جب کپڑے بہنے بغیر ان پھولوں پر سونا ہو تو سردی اور کانٹا دونوں ہو سکتے ہیں۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ میں اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا یہ وہ حالت تھی کہ وہ سوچ رہی تھی کہ اس موضوع کو آگے چلاؤں یا نہیں کیوں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
میں پوچھا: کیا ہوا کیا تمھیں نہیں پتہ تھا کہ سہاگ رات میں کیا ہوتا ہے؟
وہ آہستہ سے بولی: نہیں۔
مجھے اپنی کامیابی صاف نظر آگئی۔ اس کا نہ جانا اور اس کو ختم نہ کرنا مجھے سب بتا گیا تھا۔
سوری یار! مجھے نہیں معلوم تھا کہ تھمیں نہیں پتہ۔ بس بات ذرا ایسی ہے کہ لڑکیوں کو تو پتہ ہونا چائیے۔ مگر جب وہ بڑی ہو جائیں۔ کچھ عرصے بعد تمھیں کوئی نہ کوئی بتا ہی دے گا۔ میں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگ جائے۔
وہ خاموش رہی۔
میں نے اگلا وار کیا: اگر تم وعدہ کرو کہ کسی کو میرا نہیں بتاؤ گی تو میں بتاتا ہوں۔
وہ کچھ نہ بولی مگر اٹھ کر بھی نہ گئی۔ اب میری ھمت فل بڑھ گئی۔
میں نے کہا: سارا تمھیں پیریڈز ہوتے ہیں نا؟
وہ بری طرح چونک گئی جیسے اس سوال کی امید نہ ہو۔ اس نے سر چھکا لیا۔
میں آہستہ سے بولا: اس جگہ کے اندر لڑکا اپنا یہ (میں نے پینٹ کے اوپر سے ھاتھ لگایا) ڈالتے ہیں۔.لڑکی کے اوپر لیٹ کر اندر باہر کرتے ہیں پھر اس سے مزا لیتے ہیں۔
وہ سر جھکا کے زمین دیکھتی رہی اور بولی: میں ابھی آتی ہوں۔
یہاں میں پریشان ہو گیا۔ اگر وہ نہ آئی تو گیم گئی۔
وہ واپس آ گئی تو اس طرح بیٹھ گئی۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں جن میں بعض ایسے فلمی سین جس میں سیکس تھا وہ اور ایسی دوسری باتیں کرنے لگا۔
اب وہ بھی مجھ سے اس متعلق کچھ کچھ پوچھنے لگی جیسے درد تو نہیں ہوتا۔ یہ کتنا لمبا ہوتا ہے وغیرہ۔
اتنے میں لائٹ چلی گئی۔ میں اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے جسم پر ھاتھ رکھا تو وہ ذرا ذرا کانپ رہا تھا۔
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟"
میں بولا: وہ جو لڑکی ہی کروا سکتی ہے۔
وہ بولی: کوئی آ جائے گا۔ اور اٹھ کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ایک آنٹی نے مجھے کہا کہ باہر آ جاؤ اند کیا کر رہے ہو۔ میں کہا کہ اسی بہانے ذرا آرام کر لیتا ہوں۔ آپ بس ذرا ایک کب چائے بھجوا دیں۔
دس منٹ بعد وہ چائے لیکر آئی۔ میں نے چائے لے لی اور کہا: سارا یہاں میرے پاس آ جاؤ۔
وہ بولی: نہیں کوئی آ جائے گا۔ سب باہر ہی ہیں۔
میں نے کہا: میں انتظار کر رہا ہوں تم آؤ ذرا دیکھ بھال کے ،یہاں اندھیرا ہے کوئی نہیں آئے گا۔
وہ چلی گئی اور 5 منٹ بعد یہ آ گئی۔ دروازہ اندر سے بند کر بیڈ کے قریب آ گئی۔
میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔وہ ذرا سا کسمسائی مگر کچھ ارو نہیں کیا۔
میں نے سیدھا اپنا ھاتھ اس کی کنٹ پر رکھ دیا جو حسب توقع گیلی تھی۔
میں نے اپنا ھاتھ اس کے ٹراؤزر کے اندر ڈال دیا
اس کی کنٹ کے دونوں ہونٹوں کو رگڑنے لگا۔
اس نے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر ہٹایا نہیں۔میں اس کے چہرے کو چومتا بھی رہا اور اس کی کنٹ مسلتا بھی رہا۔
اتنے میں کوئی کھٹکا ہوا اور ہم دونوں چونک کر علیحدہ ہوگئے۔ وہ فورا" بیڈ کے دوسری طرف کارپٹ پر لیٹ گئی۔ اس کی امی اندر آئی اور پوچھا:بیٹا سارا تو یہاں نہیں ہے؟
میں نے کہا: نہیں آنٹی وہ تو چائے دے کر چلی گئی شاید وہاں دلہن کے گھر گئی ہو۔
وہ بولیں؛ بیٹا ذرا بلا آؤ اس نے کپڑےبھی پہننے ہیں۔
ان کے جانے کے بعد وہ بھی جلدی میں باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر میں لائٹ بھی آ گئی۔ مہندی کی رسم شروع ہو گئی۔ سب عورتیں لڑکی والوں کے گھر چلی گئی۔
یہاں آنٹی نے مجھے کہا کہ میں سیج تیار کروں میرا کھانا وہ بھجوا دیں گی۔
میں اکیلا کام میں جت گیا۔
سارا میرا کھانا لے کر آئی۔
میں نے اسے کہا کہ وہ نظربچا کے آ جائے مگر وہ نہ مانی۔
آخر ایک بجے جب میں پوری طرح مایوس ہو چکا تھا وہ آ گئی۔اس کے ساتھ اس بہن اور بھائی بھی تھے۔ وہ انھیں نیچے ایک کمرے میں سلا کر میرے پاس آ گئی۔
تقریب اپنے پورے عروج پر تھی مرد باہر قناتوں میں تھے اور عورتیں اندر گھر میں۔ میرے پاس ٹائم کی کمی نہیں تھی کم از کم 2 گھنٹے تھے پھر بھی کوئی بھی آ سکتا تھا۔
آخر میں نے حل یہ نکالا کہ کھڑکی کھولی اور باہر نکل کے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ اندر آ کر لائٹ آف کر دی اور سارا کو لیکے بیڈ کے نیچے لیٹ گیا۔
وہ کافی ڈری ہوئی تھی اور مجھے بہت جلدی تھی اس کی مارنے کی۔
ایک بار میں اس کی سیل کھول لیتا پھر میں بعد میں بھی اس کو تسلی سے چود لیتا۔
میں نے اس کی شلوار اتار دی اور اپنی پینٹ بھی گھٹنوں تک اتار دی۔
اس کی کنٹ بالکل کنواری تھی اور اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔
میں نے آرام سے اپنی انگی اس کی کنٹ میں ڈالی۔
تھوڑے سے تردد سے انگی اندر چلی گئی۔ وہ ذرا ذرا سی آہیں بھرنے لگی۔
میں نے اس کی قمیض گردن تک اوپر کر دی اور اسے سیدھا لٹا کے اس اوپر لیٹ گیا۔
میرا وزن اس سے کافی زیادہ تھا مگر وہ پرداشت کر گئی۔ میں نے اپنا لن کنٹ رکھا تو وہ بوبی؛ فیصل درد تو نہیں گا؟
میں نے کہا: ہلکہ سا ہو گا مگر زیادہ نہیں۔
اب میں اپنا لن اس کے اندر دھکیلا وہ چلا اٹھی: پلیز نکالو مجھے درد ہو رہا ہے پلیز بھائی پلیز مجھے درد ہو رہا ہو۔ امی ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز فیصل پلیز۔
مجھ پر اب چودائی سوار تھی۔ میں بجائے نکالنے کے اور اندر ڈالا۔
وہ اب رونے لگی مگر میرے وزن اور بیڈ کے نیچے سے کوئی جائےفرار نہیں تھی۔
وہ اپنا خون دیکھ کر رونے لگی۔ مگر یہ بھی شکر تھا کہ خون کا بیڈ کے نیچے کارپٹ پر تھا۔
دو تین منٹ کے بعد میرا لن آسانی سے جانے لگا اور اس کی مزاحمت بھی کم ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھول دی اور ذرا تیزی سے چودنے لگا۔ وہ اور زور سے رونے لگی۔ میں نے اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا۔
اس کی ٹائٹ کنٹ اور کچھ سیکس پوزیشن کی وجہ سے میں 6-7 منٹ بعد ہی چھوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد میں بیڈ کے نیچے سے نکل آیا کوئی 2-3 منٹ بعد وہ بھی آ گئی۔
میں نے اسے چومنا چاہا تو اس نے جھٹک دیا۔
" یہ تھوڑا درد تھا۔ مجھے کتنا درد ہوا ہے معلوم ہے تمھیں۔" میں جا رہی ہوں" ۔
وہ مجھے چھوڑ کر جانے لگی مگر کیسے جاتی دروازہ تو باہر سے بند تھا۔
میں نے اسے روک لیا۔
دیکھو سارا ! میری جان ایسا کرنا پڑتا ہے اگر میں نکال لیتا تو تم کبھی بھی نہ ڈلوا سکتی۔ اب دیکھنا اگلی بار جب ہم ایسا کریں گے تو کتنا مزا آئے گا۔
وہ بھڑک کے بولی: اب میں نہیں کرواؤں گی۔
میں نے کہا: کروانا تو تمھیں کرنا پڑے گا ورنہ کہیں میری زبان سلپ ہو گئی تو۔ ۔ ۔ ۔
وہ ڈر گئی اور یہی میں چاہتا تھا۔
میں نے کہا: کل رات پھر مین تمھیں اسی طرح چودوں گا۔مرضی سے کرو گی تو مزا آئے گا اور اگر زبردستی کرنا پڑا تو جتنا درد آج ہوا ہے اس زیادہ ہوگا۔
یوں سمجھو میں اس کو پھاڑ دوں گا۔
وہ چلی گئی۔ میں کل کے لئے پلان بنانے لگا۔
any lade wants sex contact me faisalabaden@ymail.com or +923143174600
ReplyDeletemeri age 27 saal hai aur mera lan (penis)kafi bara aur mota hai. aur mein pudi chatna (sucking) pudi marna (fucking)aur gand marnay mein expert hon. agar koi larki ya anti faisalabad mein muj se sex karna chahay tu rabta karay..... saima_as2000@yahoo.com
ReplyDeleteany lade wants sex contact me 0333-4848555
ReplyDeletehi i am kashif i have 7"inch long cock any lady sex with me please only sms me 03064433118 i contact you back
ReplyDelete03244707343 03244707343 03244707343
ReplyDeleteonly girls for Multan and Lahore call me,
ReplyDelete0307-7376220 Zong no
I have big and hard cock. Any anti / girl ya gando sex karna chahay tu rabta karay. Raz-dari ki gurantee ky sath. My age is 28. Only for Faisalabad
ReplyDeletee-mail: itsalman4u@yahoo.com