Saturday, 6 August 2011

لڑکیوں میں جنسی تعلیم


جب لڑکیاں لڑکپن میں داخل ہوتی ہیں تو ایک دوسرے کو اپنے رازوں میں شریک کرنا شروع کرتی ہیں۔ وہ سیکشوئل لطیفے جو کہ انہوں نے اپنی کسی بڑی کزن یا خالہ وغیرہ سے سنے ہوتے ہیں ایک دوسرے کو سناتی ہیں (یہ ویسے تو ایک انہونی ہے مگر جن خاندانوں میں ایسی خواتین موجود ہوتی ہیں، جوان لڑکیوں کے والدین اپنی بچیوں کو ان سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں)۔ تاہم اکثر لڑکیاں ریپروڈکٹو پراسس اور اس سے متعلق اصطلاحات سے انجان ہوتی ہیں اور سیکشوئل لطیفے نہ سمجھ میں آنے کے باوجود سمجھنے کا ڈھونگ کرتی ہیں۔
یہ لڑکیاں کم از کم یہ سمجھتی ہیں کہ سیکس اور سیکشوئیلٹی انسانی فطرت کے مطابق ہے، مسئلہ ان لڑکیوں کا ہے جو کہ کسی دباؤ کی وجہ سے سیکشوئل مذاق سمجھ آنے کے باوجود نہ سمجھنے کا ڈرامہ کرتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں معاشرتی دباؤ کا شکار ہیں جو کہ ان سے 100 فیصد معصومیت کا تقاضہ کرتا ہے
اٹھارہ سال اور اس سے اوپر عمر کی لڑکیوں میں سیکشوئیلٹی سے متعلق شرمندہ سی خاموشی عام گپ بازی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ لڑکیاں صرف اپنی خاص سہیلیوں سے اس قسم کی گفتگو کرتی ہیں۔ انفرادی تجسس گروہ کے تجسس میں بدل جاتا ہے۔ سب اپنی معلومات کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔ کوئی سنے سنائے قصےاپنے گروپ کے ساتھ بانٹتی ہے تو کوئی بھائیوں سے چرایا ہوا مواد گروپ میں تقسیم کرتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی ایسا ذریعہ نہیں جہاں سیکس سے متعلق معلومات تک براہِ راست رسائی ممکن ہو۔
اس سے مجھے ایک دلچسپ قصہ یاد آتا ہے۔ پانچ لڑکیوں کے ایک گروہ نے سیکشوئیلٹی کے بارے میں اپنے تجسس پر بہادری کی ٹھانی۔ انہوں نے ایک سہیلی کے گھر جمع ہوکر بالغوں والی فلم دیکھنے کا فیصلہ کیا جہاں پر ایک کمرے میں انکو ٹی وی اور وی سی آر مہیّا تھے۔ کئی دنوں کی منصوبہ بندی کے بعد آخرکار وہ دن آ پہنچا جس کا سب کو بے چینی سے انتظار تھا۔ ان میں سے ایک جو کہ گاڑی چلانا جانتی تھی اس نے والدین سے کھانے پینے کا سامان خریدنے اور فلم کرائے پر لینے کا بہانہ کر کے گاڑی لے لی۔ منصوبے کے مطابق پانچوں لڑکیاں بالغوں والی فلم کرائے پر لینے کے لیے انتہائی جوش و خروش میں گھر سے نکل کھڑی ہوئیں۔
سوال یہ تھا کہ وہ فلم لینے جائیں کہاں! فیصلہ یہ ہوا کہ خاندان کے جاننے والے آس پاس کے دکانداروں میں سے کسی کے پاس نہ جایا جائے۔ لہٰذا وہ ایک نئے علاقے میں گئیں اور ایک دکان دیکھ کر گاڑی روک لی۔ سب اس بات پر بہت خوش تھیں کہ آخرکار ان کو سیکس کے متعلق ان تمام سوالات کے جوابات مل جائیں گے جن کو پوچھنے کی ان میں سے کسی میں ہمت نہیں تھی۔
سب دکان کے اندر داخل ہوئیں۔ پانچ خوش شکل لڑکیوں کا گروپ دکان میں داخل ہوا تو سب نگاہیں ان پر جم گئیں۔ لڑکیاں اس صورتحال کے لئیے ہرگز تیار نہ تھیں۔ گھبراہٹ کے مارے وہ بالغوں والی فلم کے متعلق پوچھنے کی ہمت نہ کر سکیں۔ انہوں نے ایک ایسی فلم کے متعلق پوچھا جو کہ ریلیز بھی نہیں ہوئی تھی اور دکان چھوڑ کر باہر آ گئیں۔ اس کے بعد وہ ایک اور دکان پر گئیں جہاں پر نسبتاً کم لوگ تھے۔ اپنی موجودگی کو غیرمحسوس بنانے کے لئیے پانچوں لڑکیاں دکان میں پھیل گئیں اور مختلف پوسٹرز وغیرہ دیکھنے شروع کر دیے۔ جب دوسرے گاہک چلے گئے اور ان کو دکاندار کے ساتھ اکیلے میں بات کرنے کا موقع مل گیا تو سب اس کے گرد جمع ہو گئیں اور فلموں کی فہرست دیکھنی شروع کر دی۔ دکاندار سے بالغوں والی فلم کے متعلق پوچھنا بظاہرایک آسان سا کام تھا مگر ان لڑکیوں کو بہت بڑا پہاڑ سر کرنے کے مترادف لگ رہا تھا۔ کوشش کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اپنے اندر سوال کرنے کی ہمت نہ جمع کر سکی۔
ان میں سے ایک لڑکی سیکس کے متعلق سب سے زیادہ معلومات کا دعوٰی کرتی تھی اور ایک طرح سے گروپ لیڈر تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت سب لڑکیوں کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی ہیں۔ بہت کوشش کے باوجود اس کے منہ سے بھی الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ بالآخر 20 منٹ کی تگ ودو کے بعد لڑکیاں ایک ایسی فلم لے کر دکان سے نکل آئیں جس کا دور دور تک سیکشوئیلٹی سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اسی طرح کے چند اور تجربات کے بعد لڑکیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انکو اپنے جاننے والے دکانداروں کے پاس جانا چاہئیے کہ شاید اپنے جاننے والے دکانداروں سے مطلوبہ فلم مانگنا آسان ہو۔ گروپ کی لیڈر لڑکی نے ایک فلم کا نام بھی یاد کر لیا۔ اس نے اپنے جاننے والے دکاندار سے وہ فلم مانگنے کی ہمت بھی کر لی مگر دکاندار نے اس کو فلم دینے سے صاف انکار کر دیا۔ دکاندار نے انتہائی غیر دلچسپ طریقے سے کہا: ’میں تم لوگوں کو یہ فلم نہیں دے سکتا‘ اور یہ کہنے کے بعد دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس غیر متوقع جواب سے ان سب کو اتنا دھچکا لگا کہ ان میں سے کوئی دکاندار سے انکار کی وجہ بھی نہ پوچھ سکی اور خاموشی سے دکان چھوڑ کر باہر نکل آئیں
اگلی دکان میں وہ صرف پوسٹرز دیکھتی رہیں اور فلموں کے تعارف پڑھتی رہیں۔ وہ بالغوں والی فلم کے متعلق تو نہ پوچھ سکیں تاہم ایک فلم جو کہ نام سے سیکشوئیلٹی کے متعلق لگ رہی تھی، اسے لے کر خوش خوش گھر کی طرف روانہ ہوئیں۔

گھر پہنچتے ہی انہوں نے کمرے کا دروازہ بند کیا، جلدی جلدی فلم وی سی آر میں ڈالی اور سیکس سے متعلق حصے تک پہنچنے کے لئیے فلم کو فارورڈ کیا۔ مگر افسوس انکی قسمت اچھی نہیں تھی۔ فلم کے نام اور تعارف میں سیکس سے متعلق کافی اشارے کنائے تو تھے مگر فلم بہت ہی صاف ستھری تھی۔
یہ دن ان پانچوں لڑکیوں کے لئیے ایک یادگار دن تھا جس میں ہنسی مزاح تو بہت ہوا مگر سیکس سے متعلق کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔
18 سال سے 25 سال تک کی عمر لڑکیوں کی شادی کی صحیح عمر سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان کے والدین نے ان کے لیے ساتھی کی تلاش شروع کر دی ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ زیادہ تر درمیانے طبقے کے خاندانوں میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ لڑکیاں اپنے لیے شادی کے پروپوزل کا بندوبست خود کر لیں مگر یہ صرف اسی صورت میں قابلِ قبول ہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو کسی تقریب کے دوران اتفاقاً ملاقات میں پسند کر لیں۔ اس پروپوزل میں ہونے والے شوہر کے ساتھ کسی قسم کا ذاتی تعلق ہرگز قابلِ قبول نہیں۔
کچھ سمجھ دار لڑکیاں اپنے ماں باپ کے سامنے اپنی پسند ناپسند کبھی اشاروں کنائیوں میں اور کبھی اپنی پسند کے لڑکے میں دلچسپی لے کر ظاہر کر دیتی ہیں۔ کچھ بہادر لڑکیاں اپنی پسند سے افئیرز بھی چلا لیتی ہیں مگر معاشرے کی ناپسندیدگی اور دباؤ کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اکثر ایسی صورتحال میں پھنس جاتی ہیں جس میں انکی مرضی شامل نہیں ہوتی۔مثال کے طور پر اگر ایک لڑکی کسی لڑکے میں دلچسپی رکھتی ہے وہ اسکی چائے یا کافی کی دعوت قبول نہیں کر سکتی حالانکہ ایک دوسرے کو بہتر طور پر جاننے کے لیئے یا اپنے احساسات کی تصدیق کرنے کے لیئے ایک پبلک جگہ کے تحفظ میں ساتھ مل کر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیئے۔ مگر معاشرتی دباؤ اور ناپسندیدگی کی وجہ سے لڑکی کے پاس لڑکے کو جاننے کا واحد طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس سے مہینوں تک فون پر بات چیت کرتی رہے یہاں تک کہ اسکا تجسس اور شوق اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ لڑکے سے ملنے پر مجبور ہو جائے۔
اس طرح کی ملاقات یا تو گاڑی میں ہوتی ہے یا کسی دوست کے خالی گھر میں اور جن کے پاس زیادہ پیسے ہوں وہ ہوٹل کا کمرہ کرائے پر لے لیتے ہیں۔ بہر صورت دونوں لڑکا اور لڑکی اکیلے میں ملنے کو اس لیئے ترجیح دیتے ہیں کہ کسی پبلک جگہ پر کوئی جاننے والا ان دونوں کو ساتھ نہ دیکھ لے۔ مگر اکیلے میں رومانٹک ماحول، عمر کا تقاضہ اور ہارمونز کی ہلچل کے ملے جلے اثر کے تحت ان میں سے اکثریت نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور ایک بڑی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ پہلی ملاقات میں ایسا کچھ نہ ہو لیکن اگر وہ بار بار ملنے لگیں تو زیادہ دیر تک اپنے جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ہے
عموماً لڑکیوں کو بہکانے کا قصوروار لڑکوں کو ٹھہرایا جاتا ہے لیکن بسا اوقات ایسی کسی بھی صورتحال میں دونوں ہی جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ درحقیقت معاشرہ جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ملنے جلنے کی کوئی گنجائش نہیں دیتا اور ان پابندیوں کی بناء پر جب نقصان دہ نتائج سامنے آتے ہیں تو اس کی وجہ ان حدوں کو پار کرنا ٹھہراتا ہے جب کہ یہی غیر فطرتی معاشرتی اقدار اور حدود ان مسائل کی جڑ ہوتی ہیں۔
ان وجوہات کی بناء پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو لڑکیاں اپنے والدین پر اندھے اعتماد یا موقع نہ ملنے کی وجہ سے ان معاملات سے دور رہتی ہیں، وہ محبت کے تباہ کن اثرات سے بھی محفوظ رہتی ہیں اورایک طے شدہ شادی کے مفید اور محفوظ بندھن میں بندھ جاتی ہیں۔ پس یہ دلیل دی جاتی ہے کہ شادی سے پہلے اپنے سیکشوئل جذبات کا انکار کرنے میں ہی لڑکیوں کا بھلا ہے۔ چونکہ کسی کو اپنے فطری جذبات کو رد کرنے پر قائل کرنا انتہائی بےتکی بات ہے لہٰذا معاشرہ اس بات پر یقین کرنے لگا ہے کہ عورتوں کی کوئی سیکشوئل ضروریات ہوتی ہی نہیں۔

3 comments:

  1. sms 03156473095 razdare k sath

    ReplyDelete
  2. koi gandoo ya female (girl / aunty ) sex k leay rabta kr skti hy bcoz darya ko behtay rehna chahiay
    hotssexy803@yahoo.com
    0315-7188777

    ReplyDelete
  3. HI KOI GIRL JO MUJ SY FRNDSHP KARNA CHATI HO OUR APNA HOT FELING MUJ SY SHARE KARNA CHATI HO APNI PHUDI MAI LUN DELWNA CHATI HO TO CNTCT ME 03038711203
    SKYP ID ( SILENT_6IDOTS

    ReplyDelete