Pages

Saturday, 6 August 2011

شادی صرف ’خوشخبری‘ کے لیے


ہر ماں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کے جہیز کی تیاری شروع کر دیتی ہے۔‘ اس کہاوت پر مجھے ہمیشہ غصہ آتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ والدین کی اپنے بچوں خاص طور پر لڑکیوں سے متعلق سوچ کی عکاسی کرتی ہے
جیسے ہی لڑکی سولہ سال کی ہوتی ہے والدین پر خوف طاری ہوجاتا ہے کہ وہ اگر بیسں برس کی ہوگئی تو شادی کی منڈی میں اسے کوئی قبول نہیں کرے گا یا وہ کسی مرد کی ہوس کا نشانہ بن جائے گی۔ اس گھبراہٹ میں وہ رشتے کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اس رشتے میں معیار کا انحصار ان کی جلد بازی اور گھبراہٹ پر ہوتا ہے۔ انہیں جتنی جلدی ہو اتنی رعایات وہ لڑکے کو دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے ہمارے معاشرے میں کئی لڑکیوں کی شادی بیس سال کے عمر سے بھی پہلے کر دی جاتی ہے۔
ان نوعمر دلہنوں کو آگے اپنا راستہ صرف اپنی جبلتوں کے سہارے ڈھونڈنا اور کئی محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ اگر وہ معاشی طور پر خوش حال ہیں تو انہیں اپنے خاندان کی مدد تو حاصل ہوتی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں جو بات تمام طبقات میں مشترک ہے وہ یہ کہ ان بےچاری لڑکیوں کو کسی بھی قسم کی جنسی تعلیم دینے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ یہ نوعمر لڑکیاں جو بیک وقت جنسی لطف سے آشنا ہونے کی خواہش مند اور ساتھ ہی خوفزدہ ہوتی ہیں، شادی کے بندھن میں یوں داخل ہوتی ہیں کہ انہیں بالکل علم نہیں ہوتا کہ انہیں کیا توقع کرنی چاہئے اور ان سے کیا توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔ صورتحال مزید اس لیے بگڑ جاتی ہے کہ ان کے نئے نویلے شوہر بھی اکثر اس معاملے میں ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔ اوپر سے مرد ہونے کے باعث وہ اپنے خوف اور لاعلمی کو بیان بھی نہیں کر پاتے۔ پھر ان پر پہلی ہی رات اس فعل کو انجام دینے کا دباؤ ہوتا ہے کیونکہ اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کے بغیر ولیمہ جائز نہیں ہوتا۔
مجھے آج بھی یاد ہے جب ہماری اس دوست کی شادی ہوئی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ اسے سیکس کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔ ہم لوگ بہت بےچینی سے اگلے دن اس سے ملنے گئیں لیکن جب وہاں پہنچیں تو ہماری ملاقات ایک انتہائی پریشان لڑکی سے ہوئی جس نے اپنی پہلی رات کے تجربے سے متعلق کسی بھی قسم کی بات کرنے سے انکار کر دیا۔ گھنٹوں کی منت سماجت کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور اس نے بتایا کہ وہ پہلی رات کچھ نہیں کر پائے۔ دولہا ناتجربہ کار تھا اور وہ سہمی ہوئی۔ انہوں نے کئی مرتبہ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے اور وہ یہ خیال انہیں دہلائے دیتا تھا کہ اگلی شام ولیمہ ہے۔ ہم میں سے سب سے زیادہ باہمت لڑکی ایک ہی رات میں احساسِ کمتری میں مبتلا ہوچکی تھی۔ اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ آیا وہ اپنے نئے نئے شوہر کے لیے پرکشش بھی ہے یا نہیں، کیا وہ کبھی اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر پائے گا؟ اس کے ذہن میں جو سوال گردش کر رہے ہیں، ان کا جواب کس سے مانگے؟ ایک دوست کی حیثیت سے ہمیں اس معاملے میں خود کچھ معلوم نہ تھا، تو اسے کیا تسلی دیتے۔
ولیمہ بہت مشکل سے گزرا اور آگے اسے ایک دہشتناک رات کا سامنا تھا۔ خیر، جوڑے کی خوش قسمتی کہ لڑکا سمجھ دار تھا اور اس نے اپنے ایک تجربہ کار دوست سے بات کی۔ دوست نے اسے سمجھایا کہ وہ جلد بازی نہ کرے اور کسی بھی قسم کا جسمانی تعلق قائم کرنے سے پہلے اپنی بیوی کو ایک انسان کے طور جاننے کی کوشش کرے۔ اس رات ہماری دوست خوش رہی کہ اسے ایک نیا دوست مل گیا لیکن ہم بےخبر اس پریشانی میں سو نہ سکیں کہ نجانے اس پر کیا گزر رہی ہوگی۔
پہلی ہی رات کچھ کرلینے کا دباؤ نئے میاں بیوی سے ایک دوسرے کو جاننے کا وہ موقع بھی چھین لیتا ہے جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو جان سکیں یا ایک دوسرے کے لیے کشش محسوس کریں۔ مرد کی کارکردگی پہلی مرتبہ اکثر اچھی نہیں ہوتی اور وہ لڑکیاں جن کو اس عمل سے بہت امیدیں وابستہ ہوتی ہیں، اکثر مایوسی کا سامنا کرتی ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ وہ اپنی اس مایوسی کا ذکر بھی نہیں کر سکتیں کہ کہیں وہ بدکردار نہ سمجھی جائیں۔ مصیبت ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ مانا جاتا ہے کہ اگر عورت سیکس کے متعلق کسی بھی قسم کی شکایت کرے تو وہ بدکردار ہے۔
تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ کچھ عورتیں مختلف وجوہات کی بناء پر خوش قسمت ثابت ہوتی ہیں اور پہلی ہی رات جسمانی تعلق سے لطف اندوز ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ جو بھی ہو، لڑکے کا تجربہ کار ہونا یا دونوں کے درمیان ایک بہتر کیمسٹری کا وجود میں آجانا۔ تاہم آپ کو کبھی کوئی ایسی لڑکی نہیں ملے گی جو اپنے شوہر سے اس راحت کا اظہار کر سکے۔ ایک عورت کی سیکس لائف کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو وہ اپنے شوہر کو یہی احساس دلاتی ہے کہ وہ اس پر احسان کر رہی ہے اور یہ جسمانی تعلق صرف اس کے فرائض میں سے ایک ہے۔ اس طرح وہ اپنے باعصمت امیج کو ہر قیمت پر برقرار رکھتی ہے۔ صرف اس لڑکی کی قریبی سہیلیاں ہی یہ جان پاتی ہیں کی وہ اپنی سیکس لائف سے کتنی خوش ہے۔
شادی کے بعد سیکس کو لطف کے برعکس مرد پر قابو رکھنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور عورت اسے کھونا نہیں چاہتی۔ وہ اس فعل کے دوران کسی بھی ایسی حرکت سے گریز کرتی ہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ عورت اس عمل کے لیے کبھی پہل نہیں کرتی۔ نئی دلہن تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
ازدواجی زندگی میں جنسی فعل سے متعلق مختلف قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک سوچ یہ ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کو صرف ایک حد تک جسمانی تعلق مہیا کرے تو مرد پر بہتر قابو رکھ سکتی ہے۔ اس کے بالکل برعکس بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر عورت اپنے شوہر کی جنسی خواہشات پوری نہیں کرے گی تو مرد کسی دوسری عورت کے طرف راغب ہو جائے گا۔ تاہم عورتوں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ سج دھج کر رہیں تاکہ شوہر کی دلچسپی ان میں برقرار رہے۔ اگر نئی دلہنیں اچھے کپڑے اور زیور نہ پہنیں تو خاندان کی بڑی بوڑھی عورتیں برہم ہوتی ہیں کہ عورت کو اپنے شوہر کے لیے بن سنور کر رہنا چاہیے۔
جنسی زندگی سے متعلق سوالات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر نئی نویلی دلہنوں کی حوصلہ شکنی اس لیے کی جاتی ہے کہ کسی کے پاس بھی نہ اتنا علم ہوتا ہے اور نہ ہی جوابات۔ لوگوں کی اپنی شادیاں اور تعلقات ان کے لیے ایک راز کی طرح ہوتے ہیں جنہیں وہ افشا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس معمول کی زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں خواہ یہ زندگی انہیں پسند ہو یا نہیں۔
ازدواجی زندگی میں جنسی تعلق کا ایک واضح کردار ہے لیکن زیادہ تر عورتوں کے لیے یہ صرف بچہ پیدا کرنے تک محدود ہے۔ جیسے ہی لڑکی کی شادی ہوتی ہے، خاندان والے اور دوست ’خوشخبری‘ کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ اسے ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اگر مرد فوراً بچہ نہ چاہیں تو عورتیں انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ وہ جلد از جلد حاملہ ہو جائیں۔ دوسری طرف اگر عورت شادی کے فوراً بعد ماں نہیں بننا چاہے تو اس پر شوہر سے بات کرنے کا اسے کوئی حق حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں فوراً بچے پیدا کرنے کے رواج میں بہت تبدیلی آئی ہے۔ آج کل تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیاں بچے کی پیدائش کو دانستہ طور پر کچھ سالوں کے لیے ملتوی کر دیتے ہیں
ہمارے معاشرے میں شوہر اور بیوی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی محبت کا کھل کر اظہار کر سکیں۔ ان کا جسمانی تعلق صرف ان کے کمرے کی چار دیواری تک محدود رہتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی موجودگی میں وہ بات تو کر سکتے ہیں لیکن چھو نہیں سکتے۔ اپنے جسمانی تعلق کی بھی انہیں ایک راز کی طرح حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ ہماری دادی کے زمانے میں تو اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ وہ کسی تیسرے شخص یہاں تک کہ اپنے بچوں کی موجودگی میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ دکھائی نہ دیں۔ اسے دیکھتے ہوئے بہرحال امید کی جا سکتی ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب میاں بیوی دوسروں کے ساتھ نہیں تو کم از کم اپس میں ان تمام قابلِ اعتراض موضوعات پر بات کر سکیں گے، خواہ کچھ دیر سے آئے

4 comments:

  1. any lade wants sex contact me faisalabaden@ymail.com or +923143174600

    ReplyDelete
  2. any lady want to sex please call me this no.03317285006

    ReplyDelete
  3. any lady please call me & sms this no.03436908467 mani

    ReplyDelete
  4. I like this ijaz from ska ijazahmed93@gmail.com and lover786love@yahoo.com
    Just for enjoyment

    ReplyDelete